فرحان محمد خان
محفلین
کشمیر پر اختر عثمان کی ایک پرسوز اور ولولہ انگیز نظم ۔
Globe
وہی خواب خواب سے لوگ ہیں
وہی نیند نیند سی رات ہے
وہی تیرگی ہے چہار سُو
وہی رنجِ قیدِ حیات ہے
کسی راستے کا نشاں نہیں
جو سراغِ منزل و گام ہو
کسی روشنی کا گماں نہیں
جو یقینِ اہلِ خرام ہو
وہی مشعلیں ہیں بُجھی بُجھی
وہی سوختہ سے چراغ ہیں
وہی زخم زخم سے ہیں بدن
وہی انتظار کے داغ ہیں
کوئی میکدہ ہے نہ مے کشاں
نہ چراغِ اہلِ ایاغ ہے
وہ صبائے بُوئے سمن بکف
نہ صلائے مدحتِ باغ ہے
وہ ہلال ، ابروئے مہ رُخاں
پسِ جبرِ شب ہیں جلے ہوئے
وہ جبینِ مہر ہے سوختہ
وہ عقیق لب ہیں جلے ہوئے
وہ بدن کے جس میں تھیں بجلیاں
وہ شرارِ برق میں جل گیا
وہ غروب ہونا تھا غرب میں
وہ اُبھر کے شرق میں ڈھل گیا
غرض اہلِ ہجر کے سامنے
رہِ پُر ملال کی دھول ہے
کہیں سَرو خاکِ زمیں ہُوا
تو کہیں جلا ہوا پُھول ہے
وہ صدائے غنچۂ خوش بدن
جو وفورِ کرب سے مر گئی
وہ قضائے جلوۂ سیم تن
جو غزل کو مرثیہ کر گئی
مرے سُرخرو ، مرے خواب خُو
جو ردائے خاک پہ مر گئے
کئی نقش جو نہ اُبھر سکے
کئی نقش چاک پہ مر گئے
مرے نجم رُو مرے ماہ وَر
جنہیں کہکشائیں نہ رو سکیں
مرے گُل بدن مرے سَروسر
جنہیں کُھل کے مائیں نہ رو سکیں
مرے ذہن میں ہیں وہ طفل بھی
جو کہیں زقند نہ بھر سکے
سرِ دل ہیں ان کے نشانِ پا
جو غزال رَم نہیں کر سکے
مرے شمع رُو ، مرے شُعلہ وَر
کسی بام پر نہیں گُل ہوئے
جو ہوائے تیغِ ستم چلی
تو چراغ سر نہیں گُل ہوئے
مگر آج بھی مری خاک میں
کئی سرکشوں کا خمیر ہے
مجھے آج بھی ہے وہی جنوں
جو متاعِ اہلِ ضمیر ہے
یہ جو زہرِ ساغرِ مرگ ہے
یہی ذائقہ بھی ہے شہد کا
یہ سرِ سناں مرا سَر نہیں
یہ گلوب ہے نئے عہد کا
Globe
وہی خواب خواب سے لوگ ہیں
وہی نیند نیند سی رات ہے
وہی تیرگی ہے چہار سُو
وہی رنجِ قیدِ حیات ہے
کسی راستے کا نشاں نہیں
جو سراغِ منزل و گام ہو
کسی روشنی کا گماں نہیں
جو یقینِ اہلِ خرام ہو
وہی مشعلیں ہیں بُجھی بُجھی
وہی سوختہ سے چراغ ہیں
وہی زخم زخم سے ہیں بدن
وہی انتظار کے داغ ہیں
کوئی میکدہ ہے نہ مے کشاں
نہ چراغِ اہلِ ایاغ ہے
وہ صبائے بُوئے سمن بکف
نہ صلائے مدحتِ باغ ہے
وہ ہلال ، ابروئے مہ رُخاں
پسِ جبرِ شب ہیں جلے ہوئے
وہ جبینِ مہر ہے سوختہ
وہ عقیق لب ہیں جلے ہوئے
وہ بدن کے جس میں تھیں بجلیاں
وہ شرارِ برق میں جل گیا
وہ غروب ہونا تھا غرب میں
وہ اُبھر کے شرق میں ڈھل گیا
غرض اہلِ ہجر کے سامنے
رہِ پُر ملال کی دھول ہے
کہیں سَرو خاکِ زمیں ہُوا
تو کہیں جلا ہوا پُھول ہے
وہ صدائے غنچۂ خوش بدن
جو وفورِ کرب سے مر گئی
وہ قضائے جلوۂ سیم تن
جو غزل کو مرثیہ کر گئی
مرے سُرخرو ، مرے خواب خُو
جو ردائے خاک پہ مر گئے
کئی نقش جو نہ اُبھر سکے
کئی نقش چاک پہ مر گئے
مرے نجم رُو مرے ماہ وَر
جنہیں کہکشائیں نہ رو سکیں
مرے گُل بدن مرے سَروسر
جنہیں کُھل کے مائیں نہ رو سکیں
مرے ذہن میں ہیں وہ طفل بھی
جو کہیں زقند نہ بھر سکے
سرِ دل ہیں ان کے نشانِ پا
جو غزال رَم نہیں کر سکے
مرے شمع رُو ، مرے شُعلہ وَر
کسی بام پر نہیں گُل ہوئے
جو ہوائے تیغِ ستم چلی
تو چراغ سر نہیں گُل ہوئے
مگر آج بھی مری خاک میں
کئی سرکشوں کا خمیر ہے
مجھے آج بھی ہے وہی جنوں
جو متاعِ اہلِ ضمیر ہے
یہ جو زہرِ ساغرِ مرگ ہے
یہی ذائقہ بھی ہے شہد کا
یہ سرِ سناں مرا سَر نہیں
یہ گلوب ہے نئے عہد کا
اخترعثمان
آخری تدوین: