نظم

نظم پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کے ساتھ مناسب عنوان کے لیے بھی راہنمائی کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

فکرِ فردا میں ہے وہ کھویا ہوا
بے بسی سے پھر ہے اس کی چشم نم

تیسری دنیا سے ہے وہ اس لیے
ڈھا رہا ہے ہر کوئی اس پر ستم

سوچ پر اُس کی لگے پہرے بھی ہیں
وسعتِ پرواز بھی اُس کی ہے کم

ہیں بتانِ عشق اس کے سامنے
ہے تبھی اُس کا سرِ تسلیم خم

پیش خیمہ ہے نئے طوفان کا
حد سے یوں بڑھتا ہوا اُن کا کرم

ہر طرف ہیں راستے کانٹوں بھرے
اُس کو رہنا ہے مگر ثابت قدم

وہ جہالت دور کرنے کے لیے
لکھ رہا ہے ہاتھ میں لے کر قلم

ہر طرح کی بندشوں کو توڑ کر
پھر کہیں لینا ہے جا کے اُس نے دم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے اس کا ٹیگ ہی نہیں ملا!
نظم اچھی ہے البتہ وضاحت کی کمی اور تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بتان عشق کسے کہا جا رہا ہے؟ آخری شعر میں کیا کہنا چاہتے ہو؟
عنوان جہاں تک میں سمجھا ہوں، "نئے دور کا ادیب/شاعر" ہو سکتا ہے
تکنیکی طور پر یہ دونوں آخری ا شعار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
وہ جہالت دور کرنے کے لیے
لکھ رہا ہے ہاتھ میں لے کر قلم
... ہاتھ میں... کچھ غیر ضروری لگتا ہے

ہر طرح کی بندشوں کو توڑ کر
پھر کہیں لینا ہے جا کے اُس نے دم
ہر / ہر طرح کے ساتھ واحد اسم ہونا چاہیے۔ ہر بندش، ہر طرح کی بندش یا تمام بندشوں درست ہو گا، جس طرح نظم کر سکو
اس نے... بھی پنجابی بیانیہ ہے، درست اردو نہیں۔ جا کے، کو جا کر سے بدلا جا سکتا ہے
پھر کہیں لینا ہے جا کر اس کو دم
یا "جا کے" کے ساتھ
پھر کہیں لینا ہے اس کو جا کے دم
 
مجھے اس کا ٹیگ ہی نہیں ملا!
سر الف عین صاحب! بہت نوازش- مجھے بھی یہی لگ رہا تھا کی آپ کو ٹیگ نہیں ملا ہوگا۔اسی لیے دوبارہ ٹیگ کیا۔
نظم اچھی ہے البتہ وضاحت کی کمی اور تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بتان عشق کسے کہا جا رہا ہے؟ آخری شعر میں کیا کہنا چاہتے ہو؟
فکرِ فردا میں ہے وہ کھویا ہوا
بے بسی سے پھر ہے اس کی چشم نم

تیسری دنیا سے ہے وہ اس لیے
ڈھا رہا ہے ہر کوئی اس پر ستم

سوچ پر اُس کی لگے پہرے بھی ہیں
وسعتِ پرواز بھی اُس کی ہے کم

ہیں بتانِ عشق اس کے سامنے
ہے تبھی اُس کا سرِ تسلیم خم

اس شعر سے پہلے اشعار میں جو کچھ کہا گیا عام لوگ اس کا ذمہ دار ان لوگوں یا طاقتوں کو سمجھتے ہیں جنہیں خود کو یہ مسائل درپیش نہیں ۔ وہ عام لوگوں پر بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عام لوگ ان طاقتور لوگوں کی طرزِ زندگی سے متاثر بھی ہیں یعنی ان کو آئیڈیلائز بھی کرتے ہیں (لو انڈ ہیٹ)۔اس شعر میں انہیں جذبات کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہر طرح کی بندشوں کو توڑ کر
پھر کہیں لینا ہے جا کے اُس نے دم

اس شعر میں یہی بیان ہے کہ ان کے اثرورسوخ بالجبر کو ختم کرکے ہی ان مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
آگے آپ کی ہدایت کے مطابق اس شعر کو دوبارہ کہا ہے۔
عنوان جہاں تک میں سمجھا ہوں، "نئے دور کا ادیب/شاعر" ہو سکتا ہے
تکنیکی طور پر یہ دونوں آخری ا شعار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
وہ جہالت دور کرنے کے لیے
لکھ رہا ہے ہاتھ میں لے کر قلم

... ہاتھ میں... کچھ غیر ضروری لگتا ہے
وہ جہالت دور کرنے کے لیے
لکھ رہا ہے روز و شب لے کر قلم


ہر طرح کی بندشوں کو توڑ کر
پھر کہیں لینا ہے جا کے اُس نے دم

ہر / ہر طرح کے ساتھ واحد اسم ہونا چاہیے۔ ہر بندش، ہر طرح کی بندش یا تمام بندشوں درست ہو گا، جس طرح نظم کر سکو
اس نے... بھی پنجابی بیانیہ ہے، درست اردو نہیں۔ جا کے، کو جا کر سے بدلا جا سکتا ہے
پھر کہیں لینا ہے جا کر اس کو دم
یا "جا کے" کے ساتھ
پھر کہیں لینا ہے اس کو جا کے دم
توڑنی خود پر لگی ہیں بندشیں
پھر کہیں لینا ہے اس کو جا کے دم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
Top