نظم

من

محفلین
نظم

ترے خیالوں کی بارشوں نے
زمین دل کو ہے خوب سینچا
جو بیج بوے تھے چاہتوں کے
وہ اشک بن کر پنگر رہے ہیں
یہ درد پیہم کی ساری فصلیں
درختِ ہجراں میں ڈھل چکی ہیں
جو یاس کی ڈال پر ٹکے ہیں
وہ زرد پتے ہیں رتجگوں کے
یہ زخم ہے جو ابھی بھی تازہ
گلاب بن کر مہک رہے ہیں
لدے ہیں یادوں کے وہ شگوفے
کہ شاخِ غم پھر سجی ہوئی ہے
منؔ
 

من

محفلین
بہاؤ اور روانی کے اعتبار سے نظم خوب ہے۔

نظم کا عنوان سوجھا نہیں یا یوں ہی نہیں رکھا؟



یعنی پتوں کی کونپلیں کھل رہیں ہیں؟
کونمپلیں پھوٹتی ہیں شاید اردو میں اور نظم کا عنوان سوچا ہی نہیں کیا رکھا جاے اپ بتاییں؟
 
Top