طارق شاہ
محفلین
غزل
دامان و کنار اشک سے کب تر نہ ہُوئے آہ
دہ چار بھی آنسو مِرے گوہر نہ ہُوئے آہ
کہتے ہیں کہ ، نِکلا ہے وہ اب سیرِ چمن کو
کیا وقت ہے اِس وقت مِرے پر نہ ہُوئے آہ
خُوباں کے تو کہلائے بھی ہم بندہ و فدوی
لیکن وہ ہمارے نہ ہُوئے پر نہ ہُوئے آہ
کیا تفرقہ ہے جب کہ گئے ہم تو نہ تھا وہ !
اور آیا وہ ہم پاس، تو ہم گھر نہ ہُوئے آہ
کیا نقص ہے اُس غیرتِ خورشید کے آگے
ہم لعل تو کب ہوتے ہیں، اخگر نہ ہُوئے آہ
دریا بھی بہے مے کے، پر اے بادہ پرستاں!
یہ خشک وہ لب ہیں ،کہ کبھی تر نہ ہُوئے آہ
دیکھ اُس کو نظؔیر اب مجھے آتا ہے یہی رشک
کیوں ہم بھی اُسی طرح کے دِلبر نہ ہُوئے آہ
نظؔیر اکبر آبادی
آخری تدوین: