طارق شاہ
محفلین
غزل
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو ساتھ ہمارے یہ رنگ لانا تھا
شبِ فِراق کی ادنٰی سی اِک یہ حالت ہے
کہ تھا جو گھر، سو ہمارا وہ قید خانہ تھا
جو کروٹیں تھیں، سو وہ بیکلی کی شدّت تھی !
جو خواب تھا سو وہ، دِل غش میں ڈوُب جانا تھا
غرض نہ سر کی خبر تھی، نہ پا کا ہوش نظیر!
سرھانا پائنتی، اور پائنتی سرھانا تھا
نظیراکبرآبادی
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو ساتھ ہمارے یہ رنگ لانا تھا
شبِ فِراق کی ادنٰی سی اِک یہ حالت ہے
کہ تھا جو گھر، سو ہمارا وہ قید خانہ تھا
جو کروٹیں تھیں، سو وہ بیکلی کی شدّت تھی !
جو خواب تھا سو وہ، دِل غش میں ڈوُب جانا تھا
غرض نہ سر کی خبر تھی، نہ پا کا ہوش نظیر!
سرھانا پائنتی، اور پائنتی سرھانا تھا
نظیراکبرآبادی