محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کا ایک تاسف بھرا ہدیۂ نعت بحضور سرورِ کونین ﷺ
شہنشاہِ دو عالم سے محبت بڑھتی جاتی ہے
خوشا اس مشتِ خاکِ دل کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
مرے دل میں تری یادوں کی نکہت بڑھتی جاتی ہے
کہ آنکھوں میں اب اشکوں کی طراوت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآنِ اقدس کی تلاوت بڑھتی جاتی ہے
بحمد اللہ مرے دل کی سکینت بڑھتی جاتی ہے
خوشی کی بات ہے تعدادِ ملت بڑھتی جاتی ہے
مگر حالاتِ ملت کی نزاکت بڑھتی جاتی ہے
متاعِ دینِ حق سے اس کی غفلت بڑھتی جاتی ہے
تری امت سوئے قعرِ مذلت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآن کو چھوڑا جہالت بڑھتی جاتی ہے
شریعت ہاتھ سے چھوٹی مصیبت بڑھتی جاتی ہے
مٹی جاتی ہے سنت اور بدعت بڑھتی جاتی ہے
تری امت کے مٹنے کی علامت بڑھتی جاتی ہے
دنایت بڑھتی جاتی ہے شقاوت بڑھتی جاتی ہے
بہر سو قتلِ ناحق کی روایت بڑھتی جاتی ہے
محبت گھٹ رہی ہے اور عداوت بڑھتی جاتی ہے
ہے عنقا صلح جوئی پر خصومت بڑھتی جاتی ہے
جو اہلِ زر ہیں ان کے پاس دولت بڑھتی جاتی ہے
عوام الناس میں نکبت وَ غربت بڑھتی جاتی ہے
امانت گم ہے لوگوں سے خیانت بڑھتی جاتی ہے
نہیں گھٹتی نظر آتی یہ صورت بڑھتی جاتی ہے
بتوں کی اور شیطاں کی اطاعت بڑھتی جاتی ہے
خدا کی بندگی سے اف بغاوت بڑھتی جاتی ہے
نزولِ قہر کی ہر لحظہ ساعت بڑھتی جاتی ہے
مگر تیرے سبب سے اس کی مدت بڑھتی جاتی ہے
خدا ہی ہے نگہباں عزت و ناموسِ عورت کا
کھلے منہ اف سرِ بازار عورت بڑھتی جاتی ہے
مسلماں کی ہوا اکھڑی کہ یکجہتی نہیں باقی
ہیں جتنے غیر مسلم ان کی قوت بڑھتی جاتی ہے
گناہوں میں ملوث ہو کے توبہ بھی نہیں کرتے
معاذ اللہ اس درجہ جسارت بڑھتی جاتی ہے
شریف النفس انساں گوشۂ عزلت میں جا بیٹھے
کہ انسانوں میں توہینِ شرافت بڑھتی جاتی ہے
اسیرِ حرصِ دنیا اور ہیں غرقِ معصیت کاری
سکوں ناپید ہے دل سے ہلاکت بڑھتی جاتی ہے
سوئے الحاد و دہریت رواں ہے قافلہ سارا
شہا اس کی ہدایت کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے
کرم فرمائیں اے شاہِ مدینہ پھر اس امت پر
یہ سب کچھ دیکھ کر دل کی اذیت بڑھتی جاتی ہے
نظرؔ خاموش ہو بس ختم بھی کر داستاں اپنی
تری شوخی بہ دربارِ رسالت بڑھتی جاتی ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
خوشا اس مشتِ خاکِ دل کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
مرے دل میں تری یادوں کی نکہت بڑھتی جاتی ہے
کہ آنکھوں میں اب اشکوں کی طراوت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآنِ اقدس کی تلاوت بڑھتی جاتی ہے
بحمد اللہ مرے دل کی سکینت بڑھتی جاتی ہے
خوشی کی بات ہے تعدادِ ملت بڑھتی جاتی ہے
مگر حالاتِ ملت کی نزاکت بڑھتی جاتی ہے
متاعِ دینِ حق سے اس کی غفلت بڑھتی جاتی ہے
تری امت سوئے قعرِ مذلت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآن کو چھوڑا جہالت بڑھتی جاتی ہے
شریعت ہاتھ سے چھوٹی مصیبت بڑھتی جاتی ہے
مٹی جاتی ہے سنت اور بدعت بڑھتی جاتی ہے
تری امت کے مٹنے کی علامت بڑھتی جاتی ہے
دنایت بڑھتی جاتی ہے شقاوت بڑھتی جاتی ہے
بہر سو قتلِ ناحق کی روایت بڑھتی جاتی ہے
محبت گھٹ رہی ہے اور عداوت بڑھتی جاتی ہے
ہے عنقا صلح جوئی پر خصومت بڑھتی جاتی ہے
جو اہلِ زر ہیں ان کے پاس دولت بڑھتی جاتی ہے
عوام الناس میں نکبت وَ غربت بڑھتی جاتی ہے
امانت گم ہے لوگوں سے خیانت بڑھتی جاتی ہے
نہیں گھٹتی نظر آتی یہ صورت بڑھتی جاتی ہے
بتوں کی اور شیطاں کی اطاعت بڑھتی جاتی ہے
خدا کی بندگی سے اف بغاوت بڑھتی جاتی ہے
نزولِ قہر کی ہر لحظہ ساعت بڑھتی جاتی ہے
مگر تیرے سبب سے اس کی مدت بڑھتی جاتی ہے
خدا ہی ہے نگہباں عزت و ناموسِ عورت کا
کھلے منہ اف سرِ بازار عورت بڑھتی جاتی ہے
مسلماں کی ہوا اکھڑی کہ یکجہتی نہیں باقی
ہیں جتنے غیر مسلم ان کی قوت بڑھتی جاتی ہے
گناہوں میں ملوث ہو کے توبہ بھی نہیں کرتے
معاذ اللہ اس درجہ جسارت بڑھتی جاتی ہے
شریف النفس انساں گوشۂ عزلت میں جا بیٹھے
کہ انسانوں میں توہینِ شرافت بڑھتی جاتی ہے
اسیرِ حرصِ دنیا اور ہیں غرقِ معصیت کاری
سکوں ناپید ہے دل سے ہلاکت بڑھتی جاتی ہے
سوئے الحاد و دہریت رواں ہے قافلہ سارا
شہا اس کی ہدایت کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے
کرم فرمائیں اے شاہِ مدینہ پھر اس امت پر
یہ سب کچھ دیکھ کر دل کی اذیت بڑھتی جاتی ہے
نظرؔ خاموش ہو بس ختم بھی کر داستاں اپنی
تری شوخی بہ دربارِ رسالت بڑھتی جاتی ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی