بارگاہِ رسالت میں آنسو
منصور آفاق
﴿بغداد سے چند آنسو﴾
ہوا کہ اشک مسلسل بکھیرتی آئی
اداسیوں بھرے بادل بکھیرتی آئی
دیارِ یار کی ظلمت نصیب ہچکی پر
شبِ سیہ بھی کاجل بکھیرتی آئی
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
صدائیں آتی ہیں شعلوں کے بین کرنے کی
یا آبشار گرے ہے لہو کے جھرنے کی
عجیب ہے شبِ ماتم کہ نوحہ گر ہی نہیں
نئی روایتیں قائم ہوئی ہیں مرنے کی
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
دماغ درد کے بولوں سے اٹ گیا اپنا
بدن تمام پھپھولوں سے اٹ گیا اپنا
لکیریں ہاتھ کی بارود لے گیا چُن کر
نصیب توپ کے گولوں سے اٹ گیا اپنا
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
بچھا رہی ہے ثریا کے اوج صحرا میں
لہو کی صبحِ ستم موج موج صحرا میں
بموں کی آگ سے اپنی زمیں فروزاں ہے
اجالے بانٹتی پھرتی ہے فوج صحرا میں
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
لبِ فرات کی گفت و شنید گلیوں میں
اجل بدست پھرے ہے یزید گلیوں میں
پڑی ہیں شہر میں لاشیں مدنیہ والوں کی
ہوئے حسین کئی پھر شہید گلیوں میں
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
﴿فلسطین سے چند آنسو﴾
طلسمِ شہر نگاراں حصارِ شب میں ہے
فروغِ صبحِ بہاراں حصارِ شب میں ہے
گرائے کون ستم کی بلند دیواریں
ہر ایک دیدہ ئ یاراں حصارِ شب میں ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
یہ سر زمین سسکتی بلکتی رہتی ہے
قدم قدم پہ قیامت دھڑکتی رہتی ہے
یہ آسمان بھی دیتا نہیں ہے چھت کا کام
سروں پہ ظلم کی بجلی کڑکتی رہتی ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
لہو سے خاک کی تزئین زندگی کیلئے
یہ روز کی نئی تدفین زندگی کیلئے
حصارِ موت میں تیرا ہے قبلہ ئ اول
تڑپ رہا ہے فلسطین زندگی کیلئے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
چراغ اپنے سروں کے جلا کے مجبوراً
گزارتے ہیں برس ابتلا کے مجبوراً
سرنگ دونوں طرف سے ہے بند جیون کی
ضمیر کرتے ہیں خود کش دھماکے مجبوراً
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
﴿زیست آباد سے چند آنسو﴾
سیاہ آگ کی برسات لے کے آئی ہے
لہو میں بھیگی ہوئی را ت لے کے آئی ہے
دھماکے ، بھوک ، تفاوت، درندگی ، وحشت
نئی صدی وہی ظلمات لے کے آئی ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
حیاتِ دست بریدہ سے پیپ بہتی ہے
ہر ایک زخمِ دریدہ سے پیپ بہتی ہے
بدن ہے آدم و حوا کا چشمہ ئ ناسور
بجائے خون کے دیدہ سے پیپ بہتی ہے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
ترا تھا حکم پسینہ نہ خشک ہو نے دو
اور اس سے پیشتر اجرت کرو ادا ان کو
کیا ہے خشک اجیروں نے خون بھی آقا
ملا نہ پھر بھی مشقت کا کچھ صلہ ان کو
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
سرِ معاش تفاوت کا داغ صدیوں سے
پڑاہے فقر کا خالی ایاغ صدیوںسے
کئے ہیں مورچہ ئ لوح پر بھی لاکھوں وار
مگرجلا نہیں اپنا چراغ صدیوں سے
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
خداکی مرضی سمجھ کر فریب ِغربت میں
پڑی ہے تیسری دنیانشیبِ غربت میں
سمجھ رہی ہے کہ مالک ہے آسمانوں کی
کہ چار نیکی کے سکے ہیں جیبِ غربت میں
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ
مثال چاہِ سگاں ارتکازِ زر آقا
ہیں بھن بھناتے جہاں مکھیوں کے پر آقا
ترے غریب ہیں غربت کی آخری حد پر
رئیس اور زیادہ رئیس تر آقا
لرز لرز کے کہا میں نے یا رسول اللہ