نظامی صاحب، "زیادہ مؤدب" ہونے کا سوال تو اس وقت ہو جب یہ الفاظ مؤدبانہ نہ ہوں، اور اگر ان الفاظ میں ادب یا زیادہ ادب نہ ہوتا بلکہ اس کا شائبہ تک ہوتا تو عظیم نعت گو شعراء جدید و قدیم، اردو و فارسی، اور وہ شعراء کرام جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول (ص) میں بسر کی، کبھی ان الفاظ کو استعمال نہ کرتے، لیکن ہر کسی نے کیا ہے! کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور یہ بھی کہ عروضی طور پر اگر کوئی ایسے الفاظ ہوتے تو ان کو وہ ضرور استعمال کرتے!
دراصل، نہ صرف یہ الفاظ بذاتِ خود "فصیح" ہیں بلکہ کلام اور شعر کی مجموعی فضا (جو کہ نعت میں صرف اور صرف ادب ہی ہوتی ہے)، اور دیگر الفاظ کی نشست و برخاست اور بندش کے ساتھ کے مل کر "بلیغ" بھی ہو جاتے ہیں لہذا ان کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے!
میرے نزدیک، اول تو ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر انکے عروضی متبادل ڈھونڈنے ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے بھائی، ہاں، صلائے عام ہے "یارانِ نکتہ داں" کے لیے
بھئ اگر "تو" بھی ہوگا اور خطاب رسولْ سے ہوگا، تو دل میں عزت و اکرام کا ہی جذبہ جاگے گا نا۔۔ الفاظ سے کیا فرق پڑتا ہے۔
لکھنؤ میں تہذیب کا تقاضا ہے کہ کسی شخص کو گالیاں دی جائیں تب بھی آپ کہا جائے!!
بڑے مہذب قسم کے لوگ ہیں۔
نظامی صاحب، "زیادہ مؤدب" ہونے کا سوال تو اس وقت ہو جب یہ الفاظ مؤدبانہ نہ ہوں، اور اگر ان الفاظ میں ادب یا زیادہ ادب نہ ہوتا بلکہ اس کا شائبہ تک ہوتا تو عظیم نعت گو شعراء جدید و قدیم، اردو و فارسی، اور وہ شعراء کرام جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول (ص) میں بسر کی، کبھی ان الفاظ کو استعمال نہ کرتے، لیکن ہر کسی نے کیا ہے! کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور یہ بھی کہ عروضی طور پر اگر کوئی ایسے الفاظ ہوتے تو ان کو وہ ضرور استعمال کرتے!
دراصل، نہ صرف یہ الفاظ بذاتِ خود "فصیح" ہیں بلکہ کلام اور شعر کی مجموعی فضا (جو کہ نعت میں صرف اور صرف ادب ہی ہوتی ہے)، اور دیگر الفاظ کی نشست و برخاست اور بندش کے ساتھ کے مل کر "بلیغ" بھی ہو جاتے ہیں لہذا ان کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے!
میرے نزدیک، اول تو ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر انکے عروضی متبادل ڈھونڈنے ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے بھائی، ہاں، صلائے عام ہے "یارانِ نکتہ داں" کے لیے