محمد تابش صدیقی
منتظم
جونہی ترا قصیدہ میں کرنے چلا رقم
گلبار ہو گیا ہے مرے ہاتھ میں قلم
یہ لمحۂ شگفتنِ گلہائے ذوق و شوق
تو ابرِ نوبہار ہے، تو بادِ صبح دم
تو ہی امامِ شرق ہے تو ہی امیرِ غرب
تو رائدِ عرب ہوا، تو قائدِ عجم
شبہائے حادثات میں تُو روشنی کی لہر
صحرائے کن فکاں میں ہے تو چشمۂ کرم
اے قاسمِ خزائن و اے ناظمِ جنود
رخشندہ تیرا نام ہے، اونچا ترا علَم
چل ہٹ، زمانۂ ہوس و جور! دور باش!
بزمِ نبیؐ میں بیٹھے ہیں مستِ نیاز ہم
غالب ہو مصلحت تو ہر اک مرحلہ طویل
نیت میں ہو خلوص تو منزل ہے دو قدم
میخانہ ہائے کفر میں رعشہ بدست رند
بتخانہ ہائے شرک میں ہیں سرنگوں صنم
تیری دعا سے بنتے ہیں گوہر صدف صدف
میری فغاں سے جوشِ تلاطم ہے یم بہ یم
واللہ، کیا ہے شانِ کمالِ عبودیت
ہے فرش پر جبیں تری اور عرش پر قدم
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
گلبار ہو گیا ہے مرے ہاتھ میں قلم
یہ لمحۂ شگفتنِ گلہائے ذوق و شوق
تو ابرِ نوبہار ہے، تو بادِ صبح دم
تو ہی امامِ شرق ہے تو ہی امیرِ غرب
تو رائدِ عرب ہوا، تو قائدِ عجم
شبہائے حادثات میں تُو روشنی کی لہر
صحرائے کن فکاں میں ہے تو چشمۂ کرم
اے قاسمِ خزائن و اے ناظمِ جنود
رخشندہ تیرا نام ہے، اونچا ترا علَم
چل ہٹ، زمانۂ ہوس و جور! دور باش!
بزمِ نبیؐ میں بیٹھے ہیں مستِ نیاز ہم
غالب ہو مصلحت تو ہر اک مرحلہ طویل
نیت میں ہو خلوص تو منزل ہے دو قدم
میخانہ ہائے کفر میں رعشہ بدست رند
بتخانہ ہائے شرک میں ہیں سرنگوں صنم
تیری دعا سے بنتے ہیں گوہر صدف صدف
میری فغاں سے جوشِ تلاطم ہے یم بہ یم
واللہ، کیا ہے شانِ کمالِ عبودیت
ہے فرش پر جبیں تری اور عرش پر قدم
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ