محمد تابش صدیقی
منتظم
روحِ دو کون پر سلام، خیرِ انام پر سلام
روضۂ سبنر پر سلام، شہرِ حرام پر سلام
جس نے بشر کے سامنے موت کو بھی جھکا دیا
ایسے پیام پر سلام، ایسے نظام پر سلام
تیغ سے، تاج و تخت سے جس کی خودی نہ دب سکی
فقرِ غیور جس کا تھا، ایسے امام پر سلام
خونِ شہید نے جسے رنگِ شفق عطا کیا
بھیج رہا ہے آفتاب روز اسی شام پر سلام
تشنہ لبانِ بے گنہ، تڑپے تھے جو لبِ فرات
بھیج رہی ہے موج موج، ان پہ سلام پر سلام
پیشِ نظامِ ظلم جو کہتے ہیں حرفِ راستی
ایسے عظام پر سلام! ایسے کرام پر سلام
اپنے لہو سے بھر کے جام، جن کے ضمیر شاد کام
نشّہ ہے جن کا جاوداں، اہلِ دوام پر سلام
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
روضۂ سبنر پر سلام، شہرِ حرام پر سلام
جس نے بشر کے سامنے موت کو بھی جھکا دیا
ایسے پیام پر سلام، ایسے نظام پر سلام
تیغ سے، تاج و تخت سے جس کی خودی نہ دب سکی
فقرِ غیور جس کا تھا، ایسے امام پر سلام
خونِ شہید نے جسے رنگِ شفق عطا کیا
بھیج رہا ہے آفتاب روز اسی شام پر سلام
تشنہ لبانِ بے گنہ، تڑپے تھے جو لبِ فرات
بھیج رہی ہے موج موج، ان پہ سلام پر سلام
پیشِ نظامِ ظلم جو کہتے ہیں حرفِ راستی
ایسے عظام پر سلام! ایسے کرام پر سلام
اپنے لہو سے بھر کے جام، جن کے ضمیر شاد کام
نشّہ ہے جن کا جاوداں، اہلِ دوام پر سلام
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ