محمد تابش صدیقی
منتظم
زوال یافتہ ہیں ہم بہت گناہی ہیں
الٰہی! پھر بھی تو عشاقِ مصطفیٰؐ ہی ہیں
مدینہ دور، نظر ناصبور، جسم ہے چور
ہنوز نالے ہمارے تو نارسا ہی ہیں
نظامِ کفر میں رہنا نہیں قبول ہمیں
درود خواں ہی نہیں، عشق کے سپاہی ہیں
ہزاروں وہ کہ اذیت کی بھٹیوں میں تپیں
ہزاروں وہ کہ جو ہجرت کی رہ کے راہی ہیں
یہ کالے داغ شہادت کے خوں سے دھل جائیں
ہمارے کتنے عمل وجہِ روسیاہی ہیں
تری ردائے مقدس کا سایہ کتنا فراخ
زمانے بھر کے بہم کس قدر پناہی ہیں
ہیں سربکف کبھی عشاق، گاہے تیغ بکف
عجیب طرح کے یہ لوگ، یا الٰہی ہیں
جو بن کے مہر، حرا کے افق سے ابھری تھی
ہم اس صداقتِ عظمیٰ کی اک گواہی ہیں
ہمارے خوں سے ہے تاریخ کا افق رنگیں
یقین جانو، یہ آثارِ صبح گاہی ہیں
سلامتی و سکینت کا چھرڑ کر ”مرکزؐ“
معاش و عیش سبھی باعثِ تباہی ہیں
رسائی شعر کی آخر کو حد تو رکھتی ہے
ہزاروں جلوے ہیں جو فن سے ماورا ہی ہیں
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
الٰہی! پھر بھی تو عشاقِ مصطفیٰؐ ہی ہیں
مدینہ دور، نظر ناصبور، جسم ہے چور
ہنوز نالے ہمارے تو نارسا ہی ہیں
نظامِ کفر میں رہنا نہیں قبول ہمیں
درود خواں ہی نہیں، عشق کے سپاہی ہیں
ہزاروں وہ کہ اذیت کی بھٹیوں میں تپیں
ہزاروں وہ کہ جو ہجرت کی رہ کے راہی ہیں
یہ کالے داغ شہادت کے خوں سے دھل جائیں
ہمارے کتنے عمل وجہِ روسیاہی ہیں
تری ردائے مقدس کا سایہ کتنا فراخ
زمانے بھر کے بہم کس قدر پناہی ہیں
ہیں سربکف کبھی عشاق، گاہے تیغ بکف
عجیب طرح کے یہ لوگ، یا الٰہی ہیں
جو بن کے مہر، حرا کے افق سے ابھری تھی
ہم اس صداقتِ عظمیٰ کی اک گواہی ہیں
ہمارے خوں سے ہے تاریخ کا افق رنگیں
یقین جانو، یہ آثارِ صبح گاہی ہیں
سلامتی و سکینت کا چھرڑ کر ”مرکزؐ“
معاش و عیش سبھی باعثِ تباہی ہیں
رسائی شعر کی آخر کو حد تو رکھتی ہے
ہزاروں جلوے ہیں جو فن سے ماورا ہی ہیں
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ