محمد تابش صدیقی
منتظم
عالمِ خاک میں اک حشر اٹھانے والے
موت کی نیند سے مُردوں کو جگانے والے
آدمی زاد درندوں سے گھری دنیا میں
آب و گل سے نیا انسان بنانے والے
اک طرف عقل کے آئین بنانے والے
اک طرف عشق کے آداب سِکھانے والے
اک طرف صبر سے ہر ظلم کو سہنے والے
اک طرف جبر سے فتنوں کو دبانے والے
زخم پر زخم رہِ صدق میں سہنے والے
چوٹ پر چوٹ رہِ عشق میں کھانے والے
شبنمِ گریۂ پُر سوز کے چھینٹے دے کر
ریگزاروں سے گل و لالہ اُگانے والے
تو نبوت کے قصیدے کا مقدس مقطع
دیں کی تکمیل کا پیغام سنانے والے
دو زمانوں کو جدا کرتی ہے تیری ہستی
آخری دور کے آغاز میں آنے والے
صبحِ نو بن کے افق پر سے چمکنے والے
باغ میں بن کے صبا پھول کھلانے والے
خاک اور نور کو پھر ربط دیا ہے تو نے
عرش سے فرش کا پھر جوڑ لگانے والے
ذکر اور فکر کو ترتیب بہم دے دے کر
دین و دنیا کو پھر اک بار ملانے والے
سیلِ تہذیب کا رخ موڑ دکھایا تو نے
بند تاریخ کے آگے سے ہٹانے والے
قافلہ ہائے تمدن کی ہدایت کے لیے
دیے آیات کے ہر گام جلانے والے
راہبوں ، کاہنوں، آقاؤں، خداوندوں سے
سب بلاؤں سے جہاں بھر کو چھڑانے والے
بیڑیاں کاٹ کے، زنجیروں کو ٹکڑے کر کے
روحِ انسان کو آزاد کرانے والے
ایک ہی صف میں کھڑا کر کے بڑوں چھوٹوں کو
مفلس و میر کی تفریق مٹانے والے
عالمِ کون کا خود راج دلارا ہو کر
اپنے خادم کو بھی پہلو میں بٹھانے والے
ایک ہی سجدۂ تسلیم کی دے کر تعلیم
سینکڑوں سجدوں سے انساں کو بچانے والے
زندگی پیٹ کے محور پر پھری ہے برسوں
دل کے محور پہ اسے آ کے پھرانے والے
پست فطرت کہ جو روٹی کے لیے جیتے تھے
ان کو اک مقصدِ اعلیٰ پہ لگانے والے
وہ جو ہر بت کی رضا کے لیے مر مٹتے تھے
حق پہ مر مٹنے کا جوش ان کو دلانے والے
حق و باطل میں گوارا نہ ہوا سمجھوتہ
کفر و اسلام کو آپس میں لڑانے والے
بھیڑ بکری سے بھی جو پست تھی اس عورت کو
پھر سے چھینے ہوئے حق سارے لانے والے
وہ جو بازیچۂ تفریح تھی ہر کوچے میں
اس کی عصمت کو درندوں سے بچانے والے
وہ جو پروانوں کی ہر بزم میں جا شمع بنی
شمعِ خانہ کا مقام اس کو دلانے والے
وہ جو اک شعلۂ عریاں رہی چوراہوں میں
اس کو فانوس کے پردوں میں سجانے والے
اہلِ محنت کے مصائب پہ پگھلنے والے
اور سرمایہ کو احسان سکھانے والے
تو نے آقاؤں کو احساسِ مروت بخشا
اے غلاموں کو غلامی سے چھڑانے والے
ایک اک سائل و محروم کے زخمِ دل پر
مرہمِ شفقت و احسان لگانے والے
اے جہاں بھر کے یتامیٰ و ایامیٰ کے ولی
ان کی دل جوئی میں گھر بار لٹانے والے
کتنے ہی خانہ بدر، خانماں بربادوں کو
اک نئے شہرِ اخوت میں بسانے والے
جس کو دنیا میں کہیں سے نہ ملے رحم کی بھیک
کام ہر ایسے دلِ زار کے آنے والے
اک نئی ملتِ انسان کو برپا کر کے
اک نئی جنتِ اخلاق بنانے والے
عین فطرت کے تقاضوں پہ ہے جس کی بنیاد
زندگی کا وہ نظام آ کے چلانے والے
زندگانی کی رہِ حق کو اجاگر کر کے
اس پہ دو طرفہ نشانات جمانے والے
کوثرِ شوق سے پیمانوں کو بھرنے والے
خم پہ خم بادۂ زم زم کے لنڈھانے والے
پھر ترے ابرِ کرم کی ہے یہ کھیتی پیاسی
پھر ترستے ہیں تجھے میرے زمانے والے
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
موت کی نیند سے مُردوں کو جگانے والے
آدمی زاد درندوں سے گھری دنیا میں
آب و گل سے نیا انسان بنانے والے
اک طرف عقل کے آئین بنانے والے
اک طرف عشق کے آداب سِکھانے والے
اک طرف صبر سے ہر ظلم کو سہنے والے
اک طرف جبر سے فتنوں کو دبانے والے
زخم پر زخم رہِ صدق میں سہنے والے
چوٹ پر چوٹ رہِ عشق میں کھانے والے
شبنمِ گریۂ پُر سوز کے چھینٹے دے کر
ریگزاروں سے گل و لالہ اُگانے والے
تو نبوت کے قصیدے کا مقدس مقطع
دیں کی تکمیل کا پیغام سنانے والے
دو زمانوں کو جدا کرتی ہے تیری ہستی
آخری دور کے آغاز میں آنے والے
صبحِ نو بن کے افق پر سے چمکنے والے
باغ میں بن کے صبا پھول کھلانے والے
خاک اور نور کو پھر ربط دیا ہے تو نے
عرش سے فرش کا پھر جوڑ لگانے والے
ذکر اور فکر کو ترتیب بہم دے دے کر
دین و دنیا کو پھر اک بار ملانے والے
سیلِ تہذیب کا رخ موڑ دکھایا تو نے
بند تاریخ کے آگے سے ہٹانے والے
قافلہ ہائے تمدن کی ہدایت کے لیے
دیے آیات کے ہر گام جلانے والے
راہبوں ، کاہنوں، آقاؤں، خداوندوں سے
سب بلاؤں سے جہاں بھر کو چھڑانے والے
بیڑیاں کاٹ کے، زنجیروں کو ٹکڑے کر کے
روحِ انسان کو آزاد کرانے والے
ایک ہی صف میں کھڑا کر کے بڑوں چھوٹوں کو
مفلس و میر کی تفریق مٹانے والے
عالمِ کون کا خود راج دلارا ہو کر
اپنے خادم کو بھی پہلو میں بٹھانے والے
ایک ہی سجدۂ تسلیم کی دے کر تعلیم
سینکڑوں سجدوں سے انساں کو بچانے والے
زندگی پیٹ کے محور پر پھری ہے برسوں
دل کے محور پہ اسے آ کے پھرانے والے
پست فطرت کہ جو روٹی کے لیے جیتے تھے
ان کو اک مقصدِ اعلیٰ پہ لگانے والے
وہ جو ہر بت کی رضا کے لیے مر مٹتے تھے
حق پہ مر مٹنے کا جوش ان کو دلانے والے
حق و باطل میں گوارا نہ ہوا سمجھوتہ
کفر و اسلام کو آپس میں لڑانے والے
بھیڑ بکری سے بھی جو پست تھی اس عورت کو
پھر سے چھینے ہوئے حق سارے لانے والے
وہ جو بازیچۂ تفریح تھی ہر کوچے میں
اس کی عصمت کو درندوں سے بچانے والے
وہ جو پروانوں کی ہر بزم میں جا شمع بنی
شمعِ خانہ کا مقام اس کو دلانے والے
وہ جو اک شعلۂ عریاں رہی چوراہوں میں
اس کو فانوس کے پردوں میں سجانے والے
اہلِ محنت کے مصائب پہ پگھلنے والے
اور سرمایہ کو احسان سکھانے والے
تو نے آقاؤں کو احساسِ مروت بخشا
اے غلاموں کو غلامی سے چھڑانے والے
ایک اک سائل و محروم کے زخمِ دل پر
مرہمِ شفقت و احسان لگانے والے
اے جہاں بھر کے یتامیٰ و ایامیٰ کے ولی
ان کی دل جوئی میں گھر بار لٹانے والے
کتنے ہی خانہ بدر، خانماں بربادوں کو
اک نئے شہرِ اخوت میں بسانے والے
جس کو دنیا میں کہیں سے نہ ملے رحم کی بھیک
کام ہر ایسے دلِ زار کے آنے والے
اک نئی ملتِ انسان کو برپا کر کے
اک نئی جنتِ اخلاق بنانے والے
عین فطرت کے تقاضوں پہ ہے جس کی بنیاد
زندگی کا وہ نظام آ کے چلانے والے
زندگانی کی رہِ حق کو اجاگر کر کے
اس پہ دو طرفہ نشانات جمانے والے
کوثرِ شوق سے پیمانوں کو بھرنے والے
خم پہ خم بادۂ زم زم کے لنڈھانے والے
پھر ترے ابرِ کرم کی ہے یہ کھیتی پیاسی
پھر ترستے ہیں تجھے میرے زمانے والے
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ