محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کے گلہائے عقیدت بحضور سرورِ کونینﷺ
وہ آمنہ ؑکے جگر کا ٹکڑا وہ بی حلیمہ کا دست پرور
وہ بندہ پرور غریب پرور تمام اہلِ جہاں کا سرور
وہ افتخارِ ہر ابنِ آدم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کی صورت پہ حسن قرباں وہ جس کی سیرت ہو عین قرآں
وہ جس کے اوصاف ہیں ستودہ کہ جس کا مداح خود ہے یزداں
درود پہنچے جسے دما دم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس پہ اتمامِ دینِ فطرت وہ جس کی تا حشر ہے شریعت
وہ جس پہ کامل ہوئی نبوت وہ جس پہ نازاں ہے آدمیت
نبیِ کامل نبیِ خاتم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ شاہِ شاہاں بہ حالِ مسکیں نہ جس کے سونا نہ جس کے چاندی
وہ جس کی سادہ مزاجیاں یہ، نہ در پہ درباں نہ گھر پہ باندی
غذا بھی جس کی ہے سادہ و کم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کے تن پر ہے ایک کملی وہ جس کا بستر بہ فرشِ خاکی
نہ کوئی عظمت کو جس کی پہنچے بہر دو عالم قسم خدا کی
خدا کی نظروں میں ہے جو اکرم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
زمیں سے تا اوجِ لوح و کرسی وہ جس کی ہر سو مچی ہیں دھومیں
وہ جس کی چوکھٹ پہ دل جھکے ہیں وہ نامِ فرخ کو جس کے چومیں
وہ جس کا اونچا ہے سب سے پرچم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
خدا کے دیں کا ہو بول بالا یہی ہے فکرِ مدام لاحق
وہ مردِ میداں وہ میرِ لشکر بہ جنگِ بدر و حنین و خندق
ہے قابلِ دید جس کا دم خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ خانۂ خاص کعبة اللہ ہے جس کے آباء کی اک نشانی
وہ چاہِ زمزم کہ ہفتِ قلزم سے بھی مضاعف ہے جس میں پانی
ہے جس کی میراث آبِ زمزم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ مانعِ شر فلاحِ امت کا جو کہ ہر دم حریص و طامع
گناہگاروں کا روزِ محشر حضورِ ربِ غفور شافع
جو با لیقیں ہے شفیعِ اعظم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس سے دنیا کو ہے عقیدت وہ جس کے روضہ پہ لوگ جائیں
جسے نظرؔ واسطہ بنا کر خدا سے دل کی مراد پائیں
وہ جس کی بستی میں ہے چم و خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
وہ بندہ پرور غریب پرور تمام اہلِ جہاں کا سرور
وہ افتخارِ ہر ابنِ آدم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کی صورت پہ حسن قرباں وہ جس کی سیرت ہو عین قرآں
وہ جس کے اوصاف ہیں ستودہ کہ جس کا مداح خود ہے یزداں
درود پہنچے جسے دما دم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس پہ اتمامِ دینِ فطرت وہ جس کی تا حشر ہے شریعت
وہ جس پہ کامل ہوئی نبوت وہ جس پہ نازاں ہے آدمیت
نبیِ کامل نبیِ خاتم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ شاہِ شاہاں بہ حالِ مسکیں نہ جس کے سونا نہ جس کے چاندی
وہ جس کی سادہ مزاجیاں یہ، نہ در پہ درباں نہ گھر پہ باندی
غذا بھی جس کی ہے سادہ و کم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کے تن پر ہے ایک کملی وہ جس کا بستر بہ فرشِ خاکی
نہ کوئی عظمت کو جس کی پہنچے بہر دو عالم قسم خدا کی
خدا کی نظروں میں ہے جو اکرم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
زمیں سے تا اوجِ لوح و کرسی وہ جس کی ہر سو مچی ہیں دھومیں
وہ جس کی چوکھٹ پہ دل جھکے ہیں وہ نامِ فرخ کو جس کے چومیں
وہ جس کا اونچا ہے سب سے پرچم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
خدا کے دیں کا ہو بول بالا یہی ہے فکرِ مدام لاحق
وہ مردِ میداں وہ میرِ لشکر بہ جنگِ بدر و حنین و خندق
ہے قابلِ دید جس کا دم خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ خانۂ خاص کعبة اللہ ہے جس کے آباء کی اک نشانی
وہ چاہِ زمزم کہ ہفتِ قلزم سے بھی مضاعف ہے جس میں پانی
ہے جس کی میراث آبِ زمزم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ مانعِ شر فلاحِ امت کا جو کہ ہر دم حریص و طامع
گناہگاروں کا روزِ محشر حضورِ ربِ غفور شافع
جو با لیقیں ہے شفیعِ اعظم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس سے دنیا کو ہے عقیدت وہ جس کے روضہ پہ لوگ جائیں
جسے نظرؔ واسطہ بنا کر خدا سے دل کی مراد پائیں
وہ جس کی بستی میں ہے چم و خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی