محمد تابش صدیقی
منتظم
معجزه تیرا کہ سدرہ سے بھی گزرا آدمی
آدمی حیراں ہیں اب اس پر کہ تو تھا آدمی
تجھ کو پا لینے سے پہلے، تجھ کو کھو دینے کے بعد
کتنا بے بس، کتنا بے کس، کتنا تنہا آدمی
جس قدر افزوں ہوئی تہذیبِ حق ناآشنا
فاصلے بڑھتے گئے ہیں آدمی تا آدمی
سب کا یکساں ہے تری بزمِ اخوت میں مقام
خواه اعلیٰ آدمی ہو، خواه ادنیٰ آدمی
تو نے اے نورِ مجسم راز یہ افشا کیا
ہے اندھیرا خود ہی اپنا، خود اجالا آدمی
اے رسولِؐ آخریں! یہ تجربہ ہے دردناک
ٹکڑے ٹکڑے ہو کے کتنی بار بکھرا آدمی
دیکھتا ہوں اے مرے پیغمبرِ انساں نواز
کیسی کیسی پستیوں میں کیسا کیسا آدمی
کاش تیرے چشمۂ حیواں پہ آ پہنچے کبھی
یہ سرابوں سے سرابوں تک بھٹکتا آدمی
تو ہی تھا جس نے دکھائی اس کو راہِ بندگی
ناتوانوں پر خدائی کر رہا تھا آدمی
روضۂ اقدس پہ حاضر ہو کے فریادی ہوا
دشمنِ جاں ہر جگہ ہے آدمی کا آدمی
رزمِ دنیا کا سپاہی، بزمِ عقبیٰ کا فروغ
تیرے ہاتھوں سے ہوا تعمیر پورا آدمی
خواہشوں کے نت نئے رنگیں کھلونوں کے عوض
آج بھی بِکتا ہے بازاروں میں سستا آدمی
اک محبِّ مصطفٰیؐ سے بات کرنا سوچ کر
اے مقابل! میں نہیں ہوں، ایسا ویسا آدمی
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
آدمی حیراں ہیں اب اس پر کہ تو تھا آدمی
تجھ کو پا لینے سے پہلے، تجھ کو کھو دینے کے بعد
کتنا بے بس، کتنا بے کس، کتنا تنہا آدمی
جس قدر افزوں ہوئی تہذیبِ حق ناآشنا
فاصلے بڑھتے گئے ہیں آدمی تا آدمی
سب کا یکساں ہے تری بزمِ اخوت میں مقام
خواه اعلیٰ آدمی ہو، خواه ادنیٰ آدمی
تو نے اے نورِ مجسم راز یہ افشا کیا
ہے اندھیرا خود ہی اپنا، خود اجالا آدمی
اے رسولِؐ آخریں! یہ تجربہ ہے دردناک
ٹکڑے ٹکڑے ہو کے کتنی بار بکھرا آدمی
دیکھتا ہوں اے مرے پیغمبرِ انساں نواز
کیسی کیسی پستیوں میں کیسا کیسا آدمی
کاش تیرے چشمۂ حیواں پہ آ پہنچے کبھی
یہ سرابوں سے سرابوں تک بھٹکتا آدمی
تو ہی تھا جس نے دکھائی اس کو راہِ بندگی
ناتوانوں پر خدائی کر رہا تھا آدمی
روضۂ اقدس پہ حاضر ہو کے فریادی ہوا
دشمنِ جاں ہر جگہ ہے آدمی کا آدمی
رزمِ دنیا کا سپاہی، بزمِ عقبیٰ کا فروغ
تیرے ہاتھوں سے ہوا تعمیر پورا آدمی
خواہشوں کے نت نئے رنگیں کھلونوں کے عوض
آج بھی بِکتا ہے بازاروں میں سستا آدمی
اک محبِّ مصطفٰیؐ سے بات کرنا سوچ کر
اے مقابل! میں نہیں ہوں، ایسا ویسا آدمی
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ