محمد تابش صدیقی
منتظم
ہے مضطرب سی تمنا کہ ایک نعت کہوں
میں اپنے زخموں کے گلشن سے تازہ پھول چنوں
پھر ان پہ شبنمِ اشکِ سحر گہی چھڑکوں
پھر ان سے شعر کی لڑیاں پرو کے نذر کروں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
کھڑا ہوں صدیوں کی دوری پہ خستہ و حیراں
یہ میرا ٹوٹا ہوا دل یہ دیدۂ گریاں
یہ مُنفعِل سے ارادے یہ مضمحل ایماں
یہ اپنی نسبتِ عالی یہ قسمتِ واژوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
پہن کے تاج بھی غیروں کے ہم غلام رہے
فلک پہ اڑ کے بھی شاہیں اسیرِدام رہے
بنے تھے ساقی مگر پھر شکستہ جام رہے
دل و نگاہ پہ طاری فرنگیوں کا فسوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
ترے مقام کی عظمت بھلا کے بیٹھے ہیں
ترے پیام کی شمعیں بجھا کے بیٹھے ہیں
ترے نظام کا خاکہ اڑا کے بیٹھے ہیں
ضمیر شرم سے پُر داغ، قلب ہے محزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
عقیدتیں ترے ساتھ، اور کافری بھی پسند
قبول نکتۂ توحید، بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خِرد ہے، نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
یہاں کہاں سے مجھے رفعتِ خیال ملے
کہاں سے شعر کو اخلاص کا جمال ملے
کہاں سے قال کو گم گشتہ رنگِ حال ملے
حضورؐ ایک ہی مصرع یہ ہو سکا موزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
میں اپنے زخموں کے گلشن سے تازہ پھول چنوں
پھر ان پہ شبنمِ اشکِ سحر گہی چھڑکوں
پھر ان سے شعر کی لڑیاں پرو کے نذر کروں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
کھڑا ہوں صدیوں کی دوری پہ خستہ و حیراں
یہ میرا ٹوٹا ہوا دل یہ دیدۂ گریاں
یہ مُنفعِل سے ارادے یہ مضمحل ایماں
یہ اپنی نسبتِ عالی یہ قسمتِ واژوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
یہ تیرے عشق کے دعوے، یہ جذبۂ بیمار
یہ اپنی گرمیِ گفتار، پستیِ کردار
رواں زبانوں پہ اشعار، کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار، اڑ گیا مضموں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
یہ اپنی گرمیِ گفتار، پستیِ کردار
رواں زبانوں پہ اشعار، کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار، اڑ گیا مضموں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
نہ سامنے کوئی منزل، نہ راستہ معلوم
نہ رہزنوں کی خبر ہے، نہ رہنما معلوم
یہ کیا مقام ہے اپنا نہیں پتہ معلوم
یہ کیا زمین ہے آخر یہ کون سا گردوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
نہ رہزنوں کی خبر ہے، نہ رہنما معلوم
یہ کیا مقام ہے اپنا نہیں پتہ معلوم
یہ کیا زمین ہے آخر یہ کون سا گردوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
پہن کے تاج بھی غیروں کے ہم غلام رہے
فلک پہ اڑ کے بھی شاہیں اسیرِدام رہے
بنے تھے ساقی مگر پھر شکستہ جام رہے
دل و نگاہ پہ طاری فرنگیوں کا فسوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
ترے مقام کی عظمت بھلا کے بیٹھے ہیں
ترے پیام کی شمعیں بجھا کے بیٹھے ہیں
ترے نظام کا خاکہ اڑا کے بیٹھے ہیں
ضمیر شرم سے پُر داغ، قلب ہے محزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
عقیدتیں ترے ساتھ، اور کافری بھی پسند
قبول نکتۂ توحید، بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خِرد ہے، نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
یہاں کہاں سے مجھے رفعتِ خیال ملے
کہاں سے شعر کو اخلاص کا جمال ملے
کہاں سے قال کو گم گشتہ رنگِ حال ملے
حضورؐ ایک ہی مصرع یہ ہو سکا موزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ