نظر لکھنوی نعت: نعت بحرِ بیکراں یعنی کوئی ساحل نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

نعت بحرِ بیکراں یعنی کوئی ساحل نہیں
نعت سے عہدہ برآ ہو کوئی اس قابل نہیں

عشقِ محبوبِ خدا جس کی متاعِ دل نہیں
گنجِ قاروں بھی ہو حاصل تو بھی کچھ حاصل نہیں

صورتِ اجمل پہ اس کی حسنِ دو عالم نثار
ہے وہ پاگل اس کے دیوانوں میں جو شامل نہیں

جگمگا رکھا ہے محفل کو فروغِ نور سے
شمعِ محفل گرچہ منظر پر سرِ محفل نہیں

حاتمِ دوراں ہے لا ینفک ہیں اس کی بخششیں
کون سی ساعت ہے در پر جب کوئی سائل نہیں

اس نے حل کر دی مری ہر مشکلِ راہِ حیات
ہے مجھے آساں یہ کہنا اب کوئی مشکل نہیں

کامل و اکمل ہمارا ہادیِ برحق ہے وہ
کوئی اس سا رہنمائے جادہ و منزل نہیں

جو اسی کے دین کے پیرو رہے تا زندگی
ان کو کچھ اندیشہ ہائے حال و مستقبل نہیں

شانِ محبوبِ خدائے قادرِ مطلق یہ دیکھ
کب درود اِس ذات پر اُس ذات کا نازل نہیں

طاقِ نسیاں میں نہ رکھیں آپ اس کی اَلکتاب
فائدہ کیا گر کھلا قرآں بہ رحلِ دل نہیں

رہتا ہے مستغرقِ دیدارِ طیبہ ہر گھڑی
دیکھتا ہوں جب بھی پہلو اس میں حاضر دل نہیں

دو عمل سے اے نظرؔ اس کی محبت کا ثبوت
صرف قولاً اس کے دم بھرنے کا میں قائل نہیں

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top