نعت ِ سرور ِ کونین (ص)

راستہ چاہیے راستہ چاہیے
عشق ِ خیرالوریٰ کا پتہ چاہیے

حرف و نُطق و بیاں بھی عطا ہو مجھے
بہر ِ توصیفِ آقا وِلا چاہیے

غم کی بارش برستی ہے چاروں طرف
رحمت ِ حق کی سر پر ردا چاہیے

میرا ملبوس تو خُسروی ہے مگر
جسم کے ڈھانپنے کو حیا چاہیے

زرد پتوں سے پیڑوں کا سر ہے جُھکا
آپ کے شہر کی اب ہوا چاہیے

راستہ میرا تکتی ہے خُلد ِ بریں
یا نبی آپ کی بس رضا چاہیے

دل کی تاریکیاں دور ہو جائیں گی
حُسن ِ محبوب ِ رب کی ضیا چاہیے

میرا کشکول خالی ہے یا مصطفی
بہر ِ حسنین تھوڑی گدا چاہیے

اُن کے در کی غلامی میسر جو ہو
ذوالفقار حزیں اور کیا چاہیے

ذوالفقار نقوی​
 
ولا ۔ اور ۔گدا چاہیے۔ سے کیا مراد ہے ؟
محترم سید عاطف علی صاحب ، آپ نے میری حقیر سی کاوش کو پسند فرمایا ، نوازش، شکریہ ۔۔۔۔۔۔ محبت سے ایک اگلی سیڑھی ہے جسے وِلا کہا جاتا ہے ۔۔۔۔مثلاََ وِلائے محمد و آل ِ محمد صلعم ۔۔۔ نیز گدا گر یعنی بھیک مانگنے والا ۔۔۔۔۔۔ اور خالی گدا کا مطلب صرف بھیک ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں غلط ہوں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترم سید عاطف علی صاحب ، آپ نے میری حقیر سی کاوش کو پسند فرمایا ، نوازش، شکریہ ۔۔۔۔۔۔ محبت سے ایک اگلی سیڑھی ہے جسے وِلا کہا جاتا ہے ۔۔۔۔مثلاََ وِلائے محمد و آل ِ محمد صلعم ۔۔۔ نیز گدا گر یعنی بھیک مانگنے والا ۔۔۔۔۔۔ اور خالی گدا کا مطلب صرف بھیک ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں غلط ہوں
میرے خیال میں گدا مانگنے والا ہوتا ہے۔۔۔ اور وَلا دوستی کے معنی رکھتا ہے۔واؤ پو زبر کے ساتھ۔
 
سید عاطف علی صاحب .....میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری توجہ اس جانب مبذول کروائی ....میں نے لغت کا سہارا لیا ....آپ نے بجا فرمایا کہ "گدا" کے معنی "بهیک مانگنے والے" کے ہیں ....
لیکن وہیں دوسری انٹری میں یہ شعر بهی نقل کیا ہوا هے ....اور مطلب "گدائی" درج ہے۔
علاوہ ازیں میں نے دیگر احباب علم و دانش سے بهی رجوع کیا ...معلوم ہوا کہ یہ لفظ دونوں طرح مستعمل ہے ...شعر دیکهیں جو آن لائن لغت میں درج ہے

ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ﺩﺭ ﯾﻮﺯﮦ ﮔﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﮔﺪﺍ ﮐﻮ
بلکہ آپ کے لئے لنک حاضر ہے ۔۔۔۔
http://urdulughat.info/words/5402-گدا
اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی : گَداؤں [گَدا + اوں (و مجہول)]
١ - [ مذکر ] مفلس، نادار، غریب، فقیر، بھکاری، گداگر۔
 نہ کوئی ایسا سخی ہے نہ کہیں ایسے گدا ایک قطرے کی طلب کی ہے تو دریا پایا ( ١٩٨٤ء، ذکر خیر الانام، ٨٦ )
٢ - [ مونث ] مراد، گدائی۔
 وہ ہیں در یوزہ گر اپنے خدا کے کسی کے گھر نہیں جاتے گدا کو ( ١٨٧٣ء، مناجات ہندی، ٩٧ )
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
جزاک اللہ
میرا کشکول خالی ہے یا مصطفی
بہر ِ حسنین تھوڑی گدا چاہیے

بہت دعائیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وَلا کس زبان میں مستعمل ہے :)
مزید یہ غور کرنا پڑے گا کہ وِلا کس زبان کا لفظ ہے
ولا عربی لفظ ہے ۔معاشرتی زندگی میں ایک اہم اور معروف موضوع ہے ولاء اور براء ۔ یعنی کس سے تعلقات رکھے جائیں اور کس سے براءت کی جائے۔
http://ar.wikipedia.org/wiki/الولاء_والبراء
 
گدا : خیرات یا عطیہ وغیرہ کے معانی میں نہیں لایا جا سکتا۔ گدا (مانگنے والا)، گدائی (مانگنا)، یہی اگر پیشہ بن جائے تو : گدا گر اور گدا گری۔
950 سال پہلے (حسن شوقی) اردو کی یہ صورت نہیں تھی جو آج ہے۔ امیرخسرو کی مثال لے لیجئے، ان کے ہاں ہندی فارسی، ہندی عربی تراکیب بہت ملتی ہیں، آج ان کو درست نہیں مانا جاتا۔ حسن شوقی یا امیر خسرو نے تب جو کہا، درست کہا، اب وہ بات گئی جانئے۔ جیسے غالب کے قوافی کو ہم آج کے قواعد پر نہیں پرکھ سکتے، کہ تب عربی فارسی قوافی جیسے جس نے استعمال کر لئے، اب ویسا نہیں ہے۔

ولا : اس کی اصل عربی ہے: و ل ی ۔۔ وَلاء اور وِلاء دونوں اعراب ملتے ہیں۔ محبت، تعلق، قرابت داری۔
حوالہ "مصباح اللغات" از عبدالحفیظ بلیاوی
 
آخری تدوین:
Top