محمد تابش صدیقی
منتظم
کچھ کفر نے فتنے پھیلائے، کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی، انسان سے انساں ٹکرائے
پامال کیا، برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے
جب ظلم و ستم حد سے گزرے، تشریف محمدﷺ لے آئے
رحمت کی گھٹائیں لہرائیں، دنیا کی امیدیں بر آئیں
اکرام و عطا کی بارش کی، اخلاق کے موتی برسائے
تہذیب کی شمعیں روشن کیں، اونٹوں کے چرانے والوں نے
کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، ذروں کے مقدر چمکائے
کچھ کیف دیا، کچھ ہوشیاری، کچھ سوز دیا، کچھ ساز دیا
میخانۂ علم و عرفاں میں، توحید کے ساغر چھلکائے
ہر چیز کو رعنائی دے کر دنیا کو حیاتِ نو بخشی
صبحوں کے بھی چہروں کو دھویا، راتوں کے بھی گیسو سلجھائے
اللہ سے رشتے کو جوڑا، باطل کے طلسموں کو توڑا
خود وقت کے دھارے کو موڑا، طوفاں میں سفینے تیرائے
تلوار بھی دی، قرآں بھی دیا، دنیا بھی عطا کی، عقبیٰ بھی
مرنے کو شہادت فرمایا، جینے کے طریقے سمجھائے
مکہ کی زمیں اور عرش کہاں، دم بھر میں یہاں، پل بھر میں وہاں
پتھر کو عطا گویائی کی اور چاند کے ٹکڑے فرمائے
مظلوموں کی فریاد سنی، مجبوروں کی غم خواری کی
زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا
شیشوں میں نزاکت پیدا کی، کردار کے جوہر چمکائے
توحید کا دھارا رک نہ سکا ، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا
کفار بہت کچھ جھنجلائے، شیطاں نے ہزاروں بل کھائے
اے نام محمد صلِ علیٰ، ماہرؔ کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے
٭٭٭
مولانا ماہر القادریؒ
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی، انسان سے انساں ٹکرائے
پامال کیا، برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے
جب ظلم و ستم حد سے گزرے، تشریف محمدﷺ لے آئے
رحمت کی گھٹائیں لہرائیں، دنیا کی امیدیں بر آئیں
اکرام و عطا کی بارش کی، اخلاق کے موتی برسائے
تہذیب کی شمعیں روشن کیں، اونٹوں کے چرانے والوں نے
کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، ذروں کے مقدر چمکائے
کچھ کیف دیا، کچھ ہوشیاری، کچھ سوز دیا، کچھ ساز دیا
میخانۂ علم و عرفاں میں، توحید کے ساغر چھلکائے
ہر چیز کو رعنائی دے کر دنیا کو حیاتِ نو بخشی
صبحوں کے بھی چہروں کو دھویا، راتوں کے بھی گیسو سلجھائے
اللہ سے رشتے کو جوڑا، باطل کے طلسموں کو توڑا
خود وقت کے دھارے کو موڑا، طوفاں میں سفینے تیرائے
تلوار بھی دی، قرآں بھی دیا، دنیا بھی عطا کی، عقبیٰ بھی
مرنے کو شہادت فرمایا، جینے کے طریقے سمجھائے
مکہ کی زمیں اور عرش کہاں، دم بھر میں یہاں، پل بھر میں وہاں
پتھر کو عطا گویائی کی اور چاند کے ٹکڑے فرمائے
مظلوموں کی فریاد سنی، مجبوروں کی غم خواری کی
زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا
شیشوں میں نزاکت پیدا کی، کردار کے جوہر چمکائے
توحید کا دھارا رک نہ سکا ، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا
کفار بہت کچھ جھنجلائے، شیطاں نے ہزاروں بل کھائے
اے نام محمد صلِ علیٰ، ماہرؔ کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے
٭٭٭
مولانا ماہر القادریؒ