فارقلیط رحمانی
لائبریرین
نعت گوئی۔۔۔ دلیل عشق ومحبت ضرور مگر۔۔۔
مولانا محمدمجیب الدین قاسمی * (ایم اے)
××××××××انسانی جذبات کے اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ ’’شعر‘‘ ہے؛ کیونکہ شاعری خالص جذبات کے اظہار کا نام ہے اور انسانی جذبات میں بھی جذبۂ محبت کے اظہار کے لیے شعر کی زبان سب سے زیادہ موزوں ہے؛ بلکہ اگریہ کہا جائے توشاید مبالغہ نہ ہو کہ شعر کا اصل موضوع ہی محبت ہے؛ اسی لیے شعر اور محبت کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے؛ پھرعشق ومحبت بھی دوقسم کی ہے، ایک وہ جسے عشقِ مجازی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جسے عشقِ حقیقی کہتے ہیں، پہلے کا تعلق مخلوق سے ہے، دوسرے کا خالق سے، پہلے میں بظاہر جوش وخروش زیادہ ہوتا ہے لیکن پائیداری کم اور دوسرے میں عموماً ٹھہراؤ ہوتا ہے اور پائیداری زیادہ، پہلا اکثر مرورِ ایام سے سرد اور کمزور پڑجاتا ہے اور دوسرے میں مرورِ ایام سے پختگی آجاتی ہے، پہلے کامنتہائے مقصود وصال ہے اور دوسرے کا مقصود رضائے دوست، پہلے کا تعلق صفات سے ہے اور دوسرے کا تعلق ذات سے؛ چونکہ درحقیقت عشق وہی ہے جوذات سے ہو جس کا مقصود رضائے دوست ہو اور جومرورِ ایام سے سر داور ٹھنڈانہ پڑے اس لیے دوسری قسم کا عشق ہی عشقِ حقیقی ہے اور پہلی قسم کومحض مجازاً عشق سے تعبیر کردیا جاتا ہے؛ ورنہ حقیقت میں وہ عشق ہے ہی نہیں؛ لہٰذا عشق، حقیقت میں وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ہو اور عشق رسول بھی درحقیقت مخلوق ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس حیثیت سے ہوتا ہے کہ آپ خالق تک پہونچنے کا لازمی واسطہ ہیں، آپ کے بغیر کوئی شخص خالق تک نہیں پہنچ سکتا، اس لیے عشق خداوندی اور عشق رسولؐ دونوں لازم وملزوم ہیں؛ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود ارشاد فرمایا کہ ’’اگر مجھ سے محبت رکھتے ہو تومیرے رسولؐ کی اتباع کرو‘‘ (ال عمران:۳۱) اس لیے عشق خداوندی اتباع رسول کی شکل میں عشق رسول کے بغیر ناممکن ہے۔
شعر کا موضوع محبت ہے اور محبت کا اصلی موضوع حضور سرور دوعالمؐ کی ذاتِ گرامی ،اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے توشاید زیادتی نہ ہو کہ شعر کا اصل موضوع ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہونی چاہیے اور شعر درحقیقت وہی شعر ہے جو اللہ یااس کے رسولؐ کی محبت میں کہا گیا ہو؛ چنانچہ رسول اکرمؐ کا ذکر مبارک اور آپ کے شمائل واوصافِ عالیہ کا بیان؛ خواہ نثر میں ہو یانظم میں یہ سب نعت رسولؐ کے زمرہ میں داخل ہے؛ مگرباعتبار عرف نعت کا اطلاق منظوم کلام پر ہوتا ہے؛ چونکہ نعت کا موضوع براہِ راست (مجاز واستعارہ اور تشبیہات کے بغیر) حضور سرور دوعالمؐ کی ذاتِ گرامی ہے؛ اس لیے یہ شاعری کی افضل ترین صنف ہے؛ بلکہ اسے شاعری کی آبرو کہنا چاہیے اور مسلمان شعراء نے اس پر نوع بہ نوع اسالیب کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا (ان شاء اللہ)۔
نعت جتنی مقدس پاکیزہ اور جتنی شیریں صنف سخن ہے اتنی ہی نازک بھی ہے، یہ محبوب مجازی کی تعریف والی غزلیں نہیں ہیں، جن میں رہوارِ خیال کو بے لگام چھوڑ کر جومنھ میں آئے کہہ دیا جائے؛ بلکہ یہ اس ذاتِ گرامی کا تذکرہ ہے جس کی عظمت وتقدس کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا نہایت محتاط طریقہ سے اس وادی میں قدم رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ تمام اُمور کی بھرپور رعایت ہوسکے؛ کیونکہ نعت گوئی کے وقت ایک طرف توایک بے مایہ انسان اس احساس سے مغلوب ہوتا ہے کہ
نعت گوئی کے شرائط:
ہرعمل کے مقبول ہونے کے لیے اوّلین شرط ایمان واسلام یعنی قلب وقالب کا ہراعتبار سے دین حق کو قبول کرنا ہے، ارشادِ باری ہے وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (ال عمران:۸۵) یعنی اور جو شخص اسلام کے سواء کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تووہ اس سے ہرگز مقبول نہ ہوگا اور (وہ شخص) آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا (یعنی ثواب وکامیابی سے قطعاً محروم )؛ لہٰذا ایمان کی صحت وسلامتی کی فکر ہرمسلمان کا اوّلین فرض ہے، اس کے بغیر کوئی عمل قابلِ قبول نہیں۔
نبی کریمؐ سے والہانہ عقیدت اور شیفتگی کوبھی نعت کے لوازمات میں اساس وبنیاد کا درجہ حاصل ہے؛ بلکہ یہ چیز توتکمیل ایمان کے لوازمات میں سے ہے، ایک مؤمن صادق کو آپؐ سے کس قدرتعلق ومحبت ہونی چاہیے اس کی طرف قرآن کریم میں یوں اشارہ کیا گیا ہے النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ (الاحزاب:۶) نبی کریمؐ سے لگاؤ ہے ایمان والوں کواپنی جان سے زیادہ؛ کیونکہ نبی کریمؐ کی تعظیم ومحبت ہی وہ نقطہ ہے جوایک عاشق صادق کواپنے محبوب کے خیال میں مگن رہنے اور اس کی توصیف ونعت گوئی میں محوسخن رہنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کی بدولت اس کے کلام میں سوز وساز اور کیف واثر پیدا ہوتا ہے۔
نعت گوئی کی ایک شرط اطاعتِ رسول بھی ہے؛ کیونکہ حب رسول کی ظاہری علامت یہ ہے کہ سنتِ رسول کا پابند ہو، بدعات سے مجتنب ومتنفر ہو اور شریعت (یعنی آپؐ کے لائے ہوئے تمام احکام) کودل وجان سے قبول کرتا ہو؛ کیونکہ جس قدر محبت ہوگی اسی درجہ اطاعت وفرمانبرداری ہوگی۔
نعت گوئی کے بعض اہم آداب:
شانِ رسالت میں مدح سرائی ونعت گوئی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا، نبی کریمؐ کی خوشنودی اور آخرت میں کامیابی ہو، محبوب رب العالمینؐ کا ارشاد ہے انَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِیَّات (بخاری) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیت کی درستگی سے معمولی کام بھی عبادت اور تقربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور نیت کے فتور سے عبادت بھی درجہ قبولیت سے گرکر کرنے والوں کے لیے وبال بن سکتی ہے، جو لوگ محض تفریح طبع، خودنمائی اور گرمئ محفل کے لیے نعت کہتے ہیں وہ اس مقصد سے بہت دور ہیں؛ بلکہ ممدوح رب العالمین کی مدح وثناء کے جلو میں اگرخود ستائی اور خودنمائی کے جذبات کار فرما ہوں تویہ عمل شانِ رسالت میں سوء ادب کی وجہ سے اور زیادہ قابل نفرت اور مردود ہوگا بلکہ اس پر سخت گرفت کا اندیشہ ہے؛ اس لیے مدح رسالت اور شان نبوت میں نعت گوئی کے لیے نیت کی اصلاح سب سے اہم ہے۔
نعت گوئی کا دوسرا ادب حسنِ خطاب اور طرزِ ادا ہے، یعنی نعت کہتے وقت بھی طرزِ اظہار تشبیہ واستعارہ اور انتخاب الفاظ میں مقام ومرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیا جائے، کلام میں ایسا انداز اختیار کرنا یاایسے الفاظ لانا جس سے گستاخی، بیباکی، غیرشائستگی، ابتذال اور سوقیانہ پن کا اظہار ہوتا ہو نہایت درجہ کی بے ادبی ہے؛ کیونکہ اشرف الانبیاء محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نرم گرفتاری ،تہذیب وشائستگی اور حسنِ خطاب سے پیش آنے کا حکم خود رب العالمین نے دیا ہے، ارشاد باری ہے وَلَاتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات:۲) اور نہ ان سے کھل کر بولا کرو، جیسے آپس میں کھل کر بولا کرتے ہو۔
مولانا محمدمجیب الدین قاسمی * (ایم اے)
××××××××انسانی جذبات کے اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ ’’شعر‘‘ ہے؛ کیونکہ شاعری خالص جذبات کے اظہار کا نام ہے اور انسانی جذبات میں بھی جذبۂ محبت کے اظہار کے لیے شعر کی زبان سب سے زیادہ موزوں ہے؛ بلکہ اگریہ کہا جائے توشاید مبالغہ نہ ہو کہ شعر کا اصل موضوع ہی محبت ہے؛ اسی لیے شعر اور محبت کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے؛ پھرعشق ومحبت بھی دوقسم کی ہے، ایک وہ جسے عشقِ مجازی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جسے عشقِ حقیقی کہتے ہیں، پہلے کا تعلق مخلوق سے ہے، دوسرے کا خالق سے، پہلے میں بظاہر جوش وخروش زیادہ ہوتا ہے لیکن پائیداری کم اور دوسرے میں عموماً ٹھہراؤ ہوتا ہے اور پائیداری زیادہ، پہلا اکثر مرورِ ایام سے سرد اور کمزور پڑجاتا ہے اور دوسرے میں مرورِ ایام سے پختگی آجاتی ہے، پہلے کامنتہائے مقصود وصال ہے اور دوسرے کا مقصود رضائے دوست، پہلے کا تعلق صفات سے ہے اور دوسرے کا تعلق ذات سے؛ چونکہ درحقیقت عشق وہی ہے جوذات سے ہو جس کا مقصود رضائے دوست ہو اور جومرورِ ایام سے سر داور ٹھنڈانہ پڑے اس لیے دوسری قسم کا عشق ہی عشقِ حقیقی ہے اور پہلی قسم کومحض مجازاً عشق سے تعبیر کردیا جاتا ہے؛ ورنہ حقیقت میں وہ عشق ہے ہی نہیں؛ لہٰذا عشق، حقیقت میں وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ہو اور عشق رسول بھی درحقیقت مخلوق ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس حیثیت سے ہوتا ہے کہ آپ خالق تک پہونچنے کا لازمی واسطہ ہیں، آپ کے بغیر کوئی شخص خالق تک نہیں پہنچ سکتا، اس لیے عشق خداوندی اور عشق رسولؐ دونوں لازم وملزوم ہیں؛ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود ارشاد فرمایا کہ ’’اگر مجھ سے محبت رکھتے ہو تومیرے رسولؐ کی اتباع کرو‘‘ (ال عمران:۳۱) اس لیے عشق خداوندی اتباع رسول کی شکل میں عشق رسول کے بغیر ناممکن ہے۔
شعر کا موضوع محبت ہے اور محبت کا اصلی موضوع حضور سرور دوعالمؐ کی ذاتِ گرامی ،اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے توشاید زیادتی نہ ہو کہ شعر کا اصل موضوع ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہونی چاہیے اور شعر درحقیقت وہی شعر ہے جو اللہ یااس کے رسولؐ کی محبت میں کہا گیا ہو؛ چنانچہ رسول اکرمؐ کا ذکر مبارک اور آپ کے شمائل واوصافِ عالیہ کا بیان؛ خواہ نثر میں ہو یانظم میں یہ سب نعت رسولؐ کے زمرہ میں داخل ہے؛ مگرباعتبار عرف نعت کا اطلاق منظوم کلام پر ہوتا ہے؛ چونکہ نعت کا موضوع براہِ راست (مجاز واستعارہ اور تشبیہات کے بغیر) حضور سرور دوعالمؐ کی ذاتِ گرامی ہے؛ اس لیے یہ شاعری کی افضل ترین صنف ہے؛ بلکہ اسے شاعری کی آبرو کہنا چاہیے اور مسلمان شعراء نے اس پر نوع بہ نوع اسالیب کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا (ان شاء اللہ)۔
نعت جتنی مقدس پاکیزہ اور جتنی شیریں صنف سخن ہے اتنی ہی نازک بھی ہے، یہ محبوب مجازی کی تعریف والی غزلیں نہیں ہیں، جن میں رہوارِ خیال کو بے لگام چھوڑ کر جومنھ میں آئے کہہ دیا جائے؛ بلکہ یہ اس ذاتِ گرامی کا تذکرہ ہے جس کی عظمت وتقدس کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا نہایت محتاط طریقہ سے اس وادی میں قدم رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ تمام اُمور کی بھرپور رعایت ہوسکے؛ کیونکہ نعت گوئی کے وقت ایک طرف توایک بے مایہ انسان اس احساس سے مغلوب ہوتا ہے کہ
ہزار بار بشویم دہن زمشک وگلاب
ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی ست
دوسری طرف اس ذاتِ اقدس کی صفات وکمالات کا تصور الفاظ کی تنگ دامنی کا احساس دلاتا ہے اور انسان یہ یقین کئے بغیر نہیں رہتا کہ اظہار وبیان کے جتنے اسلوب انسان کے تصرفات میں ہیں ان میں سے کوئی بھی اس ذاتِ گرامی کی حقیقی تعریف وتوصیف کے لیے کافی نہیں ہوسکتے، تیسرے یہ کہ جس ذاتِ اقدس کا ذکرِ مبارک نعت کا اصل موضوع ہے اس نے ہمارے ہرہرقول وفعل کے کچھ آداب بتائے ہیں، ان تمام آداب کی کماحقہ رعایت کیئے بغیر کوئی نعت شریعت کے مطابق نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ جس طرح ہرعمل کے لیے کچھ شرائط وآداب ہوتے ہیں جن پر اس عمل کے مقبول ونامقبول ہونے کا مدار ہوتا ہے؛ اسی طرح شعر اور نعت گوئی کے بھی کچھ شرائط ،لوازمات اور آداب ہیں جن کا خیال رکھنا ایک نعت گو کے لیے نہایت ضروری ہے۔ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی ست
نعت گوئی کے شرائط:
ہرعمل کے مقبول ہونے کے لیے اوّلین شرط ایمان واسلام یعنی قلب وقالب کا ہراعتبار سے دین حق کو قبول کرنا ہے، ارشادِ باری ہے وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (ال عمران:۸۵) یعنی اور جو شخص اسلام کے سواء کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تووہ اس سے ہرگز مقبول نہ ہوگا اور (وہ شخص) آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا (یعنی ثواب وکامیابی سے قطعاً محروم )؛ لہٰذا ایمان کی صحت وسلامتی کی فکر ہرمسلمان کا اوّلین فرض ہے، اس کے بغیر کوئی عمل قابلِ قبول نہیں۔
نبی کریمؐ سے والہانہ عقیدت اور شیفتگی کوبھی نعت کے لوازمات میں اساس وبنیاد کا درجہ حاصل ہے؛ بلکہ یہ چیز توتکمیل ایمان کے لوازمات میں سے ہے، ایک مؤمن صادق کو آپؐ سے کس قدرتعلق ومحبت ہونی چاہیے اس کی طرف قرآن کریم میں یوں اشارہ کیا گیا ہے النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ (الاحزاب:۶) نبی کریمؐ سے لگاؤ ہے ایمان والوں کواپنی جان سے زیادہ؛ کیونکہ نبی کریمؐ کی تعظیم ومحبت ہی وہ نقطہ ہے جوایک عاشق صادق کواپنے محبوب کے خیال میں مگن رہنے اور اس کی توصیف ونعت گوئی میں محوسخن رہنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کی بدولت اس کے کلام میں سوز وساز اور کیف واثر پیدا ہوتا ہے۔
نعت گوئی کی ایک شرط اطاعتِ رسول بھی ہے؛ کیونکہ حب رسول کی ظاہری علامت یہ ہے کہ سنتِ رسول کا پابند ہو، بدعات سے مجتنب ومتنفر ہو اور شریعت (یعنی آپؐ کے لائے ہوئے تمام احکام) کودل وجان سے قبول کرتا ہو؛ کیونکہ جس قدر محبت ہوگی اسی درجہ اطاعت وفرمانبرداری ہوگی۔
نعت گوئی کے بعض اہم آداب:
شانِ رسالت میں مدح سرائی ونعت گوئی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا، نبی کریمؐ کی خوشنودی اور آخرت میں کامیابی ہو، محبوب رب العالمینؐ کا ارشاد ہے انَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِیَّات (بخاری) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیت کی درستگی سے معمولی کام بھی عبادت اور تقربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور نیت کے فتور سے عبادت بھی درجہ قبولیت سے گرکر کرنے والوں کے لیے وبال بن سکتی ہے، جو لوگ محض تفریح طبع، خودنمائی اور گرمئ محفل کے لیے نعت کہتے ہیں وہ اس مقصد سے بہت دور ہیں؛ بلکہ ممدوح رب العالمین کی مدح وثناء کے جلو میں اگرخود ستائی اور خودنمائی کے جذبات کار فرما ہوں تویہ عمل شانِ رسالت میں سوء ادب کی وجہ سے اور زیادہ قابل نفرت اور مردود ہوگا بلکہ اس پر سخت گرفت کا اندیشہ ہے؛ اس لیے مدح رسالت اور شان نبوت میں نعت گوئی کے لیے نیت کی اصلاح سب سے اہم ہے۔
نعت گوئی کا دوسرا ادب حسنِ خطاب اور طرزِ ادا ہے، یعنی نعت کہتے وقت بھی طرزِ اظہار تشبیہ واستعارہ اور انتخاب الفاظ میں مقام ومرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیا جائے، کلام میں ایسا انداز اختیار کرنا یاایسے الفاظ لانا جس سے گستاخی، بیباکی، غیرشائستگی، ابتذال اور سوقیانہ پن کا اظہار ہوتا ہو نہایت درجہ کی بے ادبی ہے؛ کیونکہ اشرف الانبیاء محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نرم گرفتاری ،تہذیب وشائستگی اور حسنِ خطاب سے پیش آنے کا حکم خود رب العالمین نے دیا ہے، ارشاد باری ہے وَلَاتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات:۲) اور نہ ان سے کھل کر بولا کرو، جیسے آپس میں کھل کر بولا کرتے ہو۔