نعت گوئی کے آداب

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلم علیکم
عنوان نعت گوئی کے آداب
یہاں پر میں اپنا ایک مضمون جوکہ کے میں نے اپنے ایک دوست سعادت حسن آس کے نعتیہ مجموعہ کے دیباچہ کے طرو پپر لکھا ہے اسے احباب کے استفادہ کے لیئے رکھ رہا ہوں
یہ مضمون گوکہ سعادت حسن آس کی نعتیہ شاعری کا ایک مطالعہ ہے لیکن اس میں شعوری طور پر نعت گوئی کے آداب پر بات چیت کی گئی ہے کیونکہ نعت گوئی جس احتاط کی متقاضی ہے آجل اس کی پروا نہیں کی جاتیۘ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
س۔۔عادت حس۔۔۔۔ن آس کا نعتیہ مجموعہ " آسمان" ﴿ آس مان ﴾

س۔۔عادت حس۔۔۔۔ن آس
کا نعتیہ مجموعہ " آسمان" ﴿ آس مان ﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از
س۔۔۔۔۔۔۔ید ش۔۔۔۔اکر ال۔۔۔۔ق۔۔ادری

درویش منش، سادہ طبیعت اوردھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے سعادت حسن آس سے میری جان پہچان آج سے کم وبیش تیس سال پہلے ہوئی جب و ہ مدنی میلاد پارٹی اور بزم چراغِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹک کے لیے ان کی فرمائشی دھنوں پرنعتیں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت سے ان کی نعت گوئی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ان کے جذبے نے اظہار کے لیے شعر کا جو روپ دھارا وہ محض لذت گفتار اور وصفِ لب و رخسار سے متشکل نہیں ہوتا بلکہ جذبے کی شدت،فکر کی سچائی اور احساس کی شیفتگی سے عبارت ہے ۔سعادت حسن آس نے اپنے فنی سفر کے لیے سعادت ابدی کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا۔ انہوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کامقصد بنالیا۔
میں یہاں پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ سعادت حسن آس ؔنے غزل بالکل نہیں کہی، انہوں نے غزل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہے تاہم ان کی غزل میں بھی ایسے معنوی حوالے مل جاتے ہیںجن کا تاثر ہمیں مولائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچ کر لے جاتا ہے۔
نعت کا موضوع بظاہر بڑا آسان، عام فہم اور سادہ لگتا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ذرا سی لغزش ہوئی اور نعت گو کے سارے اعمال اکارت ہوئے اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھے اس کا مقدر بن گئے۔عرفی جیسا خود پسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے:
ع۔۔۔۔رفی مش۔تاب این رہِ نعت است نہ صحراست
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را
مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذراسا آگے بڑھے تو الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی تو تنقیص ہو گئی۔ گویا نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔
مجید امجد کے خیال میںجناب رسالت مآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا شاعرانہ غلوضلالت کے زمرے میں آسکتا ہے اور ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ’’ نعت کے اشعار میں فنی محاسن و معائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے‘‘۔ لیکن موضوع کے احترام کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں کہ کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردہ پوشی کی جائے اور ناقد، شاعر کی بازپرس میں صرف اس لیے متأمل ہو کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے۔ اس طرح شاعر کو فنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے معتقدات کی آڑ مل جاتی ہے۔ فارسی کا یہ مقولہ’’نعت گو پوچ گو‘‘ ایسے ہی شعراء پر صادق آتا ہے جو عقیدت کے نام پر بے کیف اوربے تاثیر اشعارتخلیق کرتے رہتے ہیں۔
میرے اس موقف کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سید و سرور ِعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم بھی معجز نما فصاحت وبلاغت، شوکتِ الفاظ،حسنِ بیان، اثرو نفوذ اور معنوی کیف و کم کے اعتبار سے رہتی دنیا تک ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے بارے میںآپکا ارشادِ عالی ہے:
’’ انااوتیت بجوامع الکلم‘‘
مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں،جن کے الفاظ کم اور معانی وسیع ہیں، اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر ہونے کے باوجودوسیع معانی کا حامل بھی ہو اور زور دار بھی۔چنانچہ آپ کی احادیث مبارکہ ،کلام موزوں، ایجاز کلام،نظمِ بیان،حسنِ ترتیب اور خوش اسلوبی جیسی خوبیوں سے مالامال ہیں اور آپ کے اکثر وبیشتر ارشادات عربی ادب میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے لوگوں کے ایسے موزوں اور برجستہ کلام کی بھی تعریف فرمائی ہے جو واقعیت و صداقت کے خلاف نہ ہو اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کے مخالف شعرأ کی جانب سے خلاف واقعہ ، غلط، گمراہ کن اور نفس و شیطان کی انگیخت پر کی گئی ہجویات پر مبنی شاعری کی موثر اسلوب اور شاعرانہ حسن و ادا کے ساتھ تردید کرنے کا حکم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاری فرمایا،چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مخالفین کے مطاعن اورتنقیصی ہزلیات و ہجویات سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرنے پر مامور ہوئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مدح سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام تر فنی خوبیوں، بیان کی مرصع کاری اور معانی کی وسعت و صداقت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثری انداز میں۔
جہاں تک نعت گوئی کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔
’’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘
کامیاب نعت گوئی کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط، حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔

ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید این جا

میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے:

’’لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘

یعنی( اے ایمان والو!) اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (الحجرات:۴۹)
اس ضمن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ’’کان علے رؤسنا الطیر‘‘گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ سر اٹھانے سے ان کے اڑنے کا احتمال ہو۔)
بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے لہذا ضروری ہے کہ اظہارِ نعت اور اس کی پیشکش میں ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باتمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گو کے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و اعمال تک کو ضائع کر دیتی ہے۔

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

احترامِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے متعلقہ ایک اور نازک معاملہ جو نعت گو شاعر سے حددرجہ احتیاط اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرورِ کائنات کی توجہ اور رعایت حاصل کرنے کے لیے’’راعِنَ۔۔۔۔۔۔۔۔ا‘‘ کا لفظ بولا کرتے تھے جبکہ منافقین اور یہودی اس لفظ کے ذریعہ نعوذ باللہ آپ کو ’’رع۔۔۔۔۔ون۔۔۔ت‘‘ سے متہم کرتے لیکن وہ اسے بولتے اس طرح جس سے یہ ابہام پیدا ہو کہ وہ ’’راع۔۔۔ن۔۔ا‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’ہماری رعایت فرمایئے‘‘ لیکن اللہ تبارک و تعالی تو دلوں کے احوال جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اس بات کے انسداد کے لیے ارشاد فرمایا:

یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا واسمعوا و للکافرین عذاب الیم‘‘
یعنی اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبر سے ’’راع۔۔۔۔ن۔۔ا ‘‘نہ کہا کرو،’’ ان۔۔۔ظ۔۔رن۔۔ا‘‘ کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔(بقرہ:۱۰۴)

اس حکمِ ربانی کے ذریعہ تمام مومنین کو ہر ایسے قول یا فعل سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں غلط اور صحیح ملتبس ہوجانے کا اندیشہ ہواور حق و باطل کا امتیاز واضح نہ ہوسکے ، لہذا کسی بھی قول یا فعل سے اگر اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا نقصِ ادب کا شائبہ تک پیدا ہوتا ہو اس سے بچنا چاہییے اور محض نیک نیتی کو اس کے جواز کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ہر بات اور ہر فعل کو صاف ، واضح اور بیّن ہونا چاہیے۔ بالخصوص نعتیہ شاعری کا دامن اس قسم کے کسی التباس سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تشبیہات و استعارات فن شعر گوئی کا لازمہ ہیں اور ان کے بغیر اچھا شعر تخلیق نہیں ہوتا۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ تشبیہ اور استعارہ کے معاملہ میں بھی اس پاکیزہ اور مقدس موضوع کے جملہ آداب اور احترامات کو ملحوظ رکھے، ایسی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرے جن سے نعت گوئی کی پاکیزگی، شائستگی اور تقدس مجروح ہوتے ہوں۔
نعت گوئی میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کی روایت شروع ہی سے موجود ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور عالم نعت کا یہ شعر:

یا رحمۃ للعالمیں ادرک لزین العابد ین
محبوس ایدی الظالمیں فی الموکب والمزدحم

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کی یہ روایت آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس معاملہ میں بھی اس بات کا پورا پورا خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسا پیرایۂ خطاب استعمال نہ کیا جائے جس سے شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو۔ غرض یہ کہ نعت گوئی میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جو موضوع،زبان و بیان، انتخاب الفاظ درست تشبیہات و استعارات کا استعمال اور اندازِ خطاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی نعت کی مجموعی فضا اور تاثر کو پاکیزگی سے مزین کرتا ہے۔
مدح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تخلیق ہونے والے شعری سرمایہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اسے نعت کے دو مختلف اسالیب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ایک رسمی اور دوسرا حقیقی۔ اول الذکر اسلوبِ نعت محض ایک شعری روایت کے طور پر اپنایا گیا اور مختلف شعرأ نے اپنے دواوین کی ترتیب میںحمد و نعت سے آغاز کرناضروری سمجھا ۔ اس روایت کے پس منظر میں وہ حدیث مبارکہ کار فرما ہے جس میں کہا کیا ہے کہ کوئی بھی مہتمم بالشان کام جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تعریف اور مجھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنے سے نہ کیا جائے وہ یکسر ناقص اور خیروبرکت سے محروم ہے۔ اس کے بر عکس دوسرے اسلوبِ نعت میں محض ایک رسم نہیں نباہی گئی بلکہ اس میں پوری دلچسپی کے ساتھ اہتماماً سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرضیکہ جملہ متعلقات سیرت کووالہانہ انداز میں بیان کیا گیاجس کی بنا پر یہ انداز نعت جذب و مستی اور اظہارِ محبت کا موثر ذریعہ بن گیا۔
’’آسمان ‘‘ کے شاعر سعادت حسن آسؔ کے ہاں حمدِربِ کائنات تو شاید رسمی انداز میں موجود ہو لیکن مدحِ سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملہ میں ایسا بالکل نہیں۔ انہوں نے محض حصول برکت و ثواب کے لیے نعت گوئی نہیں کی بلکہ ثنائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوحرزِ جاں بناکر اپنی تمام تر توانائیاں اس کے لیے وقف کردی ہیں۔

پھول نعتوں کے سدا دل میں کھلائے رکھنا
اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے رکھنا

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں
وہ جذبے کاش کاغذ پہ اتر جائیں تو اچھا ہو

یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود کیف و سرور اور دلکشی کی کیفیت رکھتی ہے۔ سعادت حسن آسؔ کی نعت جہاں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال ظاہری و باطنی، صورت و سیرت ،اخلاق و اوصافِ حمیدہ، اور معجزات کے بیان وغیرہ سے عبارت ہے وہاں عشقِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والہانہ تجربہ و واردات سے بھی مملو ہے۔

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے
ہراک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

عشقیہ اور تعریفی اندازِ نعت کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں گہری مقصدیت بھی پائی جاتی ہے اور وہ نعت کو محض سرورِعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے عصرِ موجود میں درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام ہی سے نعت کودفاعِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تبلیغ اسلام جیسے اعلی و ارفع مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ۔ اس وقت سے لے کر آج تک صنفِ نعت کو حصولِ مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یہ مقاصد خواہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی ان کی حیثیت خواہ معاشی اور معاشرتی ہویا ملی اورآفاقی۔ سعادت حسن آسؔ کی نعت میں بھی ہمیں واضح طور پر ایک مقصدیت نظر آتی ہے جس کا عکس ان اشعار میں نمایا ں ہے:۔

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا
ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتا نہیں دنیا میں اصولوں پہ وہ سوا
ہے آس محبت جسے سلطانِ عرب سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پورے کیے کیا حقوق العباد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد
کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد ،کون سے مان لے کر مدینے چلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسؔ کیا منہ دکھائوں گا سرکار کو، اپنے ہمدرد کو اپنے غمخوار کو
کیوں گرائوں میں فرقت کی دیوار کو، کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑ دو فرقہ بندی خدا را اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے
ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے
وہاں سے جائو گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرورعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ و استمداد روزِ اول ہی سے نعت کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کے طو پر شامل رہا ہے چنانچہ گزشتہ صفحات میں سیدنا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے مشہور نعتیہ قصیدہ کا ایک شعر نقل ہو چکا ہے جس میں وہ اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضوررفع مشکلات و مصائب کے لیے فریاد کناں ہیں۔اردو نعتیہ ادب میں مولانا الطاف حسین حالی کی نظم بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:


اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پر تری آکہ عجب وقت پڑا ہے

سعادت حسن آسؔ بھی جب کسی ملی، معاشرتی یا سماجی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے احساس کی شدت دربارِ رسالت میں استغاثے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

اک چشم التفات ادھر بھی ذرا حضورؐ
امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہاتھ

کشمیر ہو، عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک
ہر کلمہ گو تو آسؔ جڑا ہے حضورؐ سے

بنام مصطفےٰ ہو امن یارب پھر کراچی میں
مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل
پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا
کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا طالب
اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار تیرا

آخر میں یہ بات بہ تکرار کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجۂ دو جہاں کے حضور حمد و ثنا کے گلدستوںکو جس قدر بھی قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا ہو سکتاہی نہیں ورنہ غالبؔ جیسے آفاقی شاعر کو یہ بات نہ کہنا پڑتی:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

سعادت حسن آسؔ نے بھی نعتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھولوں کو خیال و فکر، عقیدت ومحبت،عشق و شیفتگی اور ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی محاسن سے آراستہ کرنے پر حتی المقدور توجہ دی ہے تاہم اس انتخاب نعت کا قاری اگر کہیں زبان و بیان، اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی محسوس کرتا ہے تویہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ’’ لفظوں کے مقدر میں کہاں اتنی رسائی‘‘ لفظ تو درماندہ وعاجز ہیں اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی اندازۂ حرف و خیال سے ماورا، البتہ بہتری کی گنجائش تو موجودرہتی ہے۔

چاندنی، شفق، شبنم، کہکشاں، صبا ، خوش بو
آس کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے تو



سیِّد شاکر القادری چشتی(نظامی)
بمقام اٹک شہر

۔
 

مغزل

محفلین
جزاک اللہ شاکر القادری صاحب، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں‌ عمل کی توفیق اور استقامت عطا فرمائے ،آمین۔
ایک زحمت کہ ’’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ کا دوسرا مصرع ( اگر مکمل کلام اور شاعر کا نام ) مل جائے تو نوازش ہوگی کہ برسوں سے ایک ہی مصرع سنتے پڑھتے آئے ہیں۔
وارث صاحب، الف نظامی، بابا جانی ، فاتح صاحب، یعقوب آسی صاحب اور فرخ منظور بھائی سمیت سبھی احباب سے التماس گزار ہوں‌۔والسلام
 
Top