محمد تابش صدیقی
منتظم
ہر شاخِ ادب ذکر سے تیرے ہی سپھل ہو
چاہے وہ قصیدہ ہو کہ وہ نظم و غزل ہو
تم باعثِ ایں عالمِ اسباب و علل ہو
محبوبِ خدا ختمِ رسل سِرِّ ازل ہو
جس دل میں تری حب بمقدارِ اقل ہو
ہنگامۂ ہستی کا نہ اس دل پہ خلل ہو
انگلی کا اشارہ ہو تو یہ ردِ عمل ہو
ٹل جائے وہ تقدیرِ الٰہی کہ اٹل ہو
وہ کوئی دقیقہ ہو کہ لحظہ ہو کہ پل ہو
ذکر آپ کا در بار گہ عزّ و جل ہو
پاکیزہ شریعت پہ جو بنیادِ عمل ہو
پیش آئے نہ مشکل کوئی، پیش آئے تو حل ہو
بعثت کہ ہے آخر میں تو یہ رمز میں سمجھا
تم سب کا بدل آئے تمہارا نہ بدل ہو
آنے کا نہیں کوئی نبیؐ تا بہ قیامت
تم اور تمہیں ہادی اقوام و ملل ہو
سنت کی تری مہر لگی گر نہ ہو شاہا
انسان کی بیکار ہی سب فردِ عمل ہو
پہنچے تمہیں اس اوج پہ واللہ جہاں پر
جبریلِ امیں کا پرِ پرواز بھی شل ہو
لب پر ہو ترا نام تصور ترا دل میں
لینے مجھے آئی سرِ بالیں جو اجل ہو
رحمت کی نظرؔ شافعِ امت مری جانب
محشر میں کہ جب وقتِ مکافاتِ عمل ہو
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
چاہے وہ قصیدہ ہو کہ وہ نظم و غزل ہو
تم باعثِ ایں عالمِ اسباب و علل ہو
محبوبِ خدا ختمِ رسل سِرِّ ازل ہو
جس دل میں تری حب بمقدارِ اقل ہو
ہنگامۂ ہستی کا نہ اس دل پہ خلل ہو
انگلی کا اشارہ ہو تو یہ ردِ عمل ہو
ٹل جائے وہ تقدیرِ الٰہی کہ اٹل ہو
وہ کوئی دقیقہ ہو کہ لحظہ ہو کہ پل ہو
ذکر آپ کا در بار گہ عزّ و جل ہو
پاکیزہ شریعت پہ جو بنیادِ عمل ہو
پیش آئے نہ مشکل کوئی، پیش آئے تو حل ہو
بعثت کہ ہے آخر میں تو یہ رمز میں سمجھا
تم سب کا بدل آئے تمہارا نہ بدل ہو
آنے کا نہیں کوئی نبیؐ تا بہ قیامت
تم اور تمہیں ہادی اقوام و ملل ہو
سنت کی تری مہر لگی گر نہ ہو شاہا
انسان کی بیکار ہی سب فردِ عمل ہو
پہنچے تمہیں اس اوج پہ واللہ جہاں پر
جبریلِ امیں کا پرِ پرواز بھی شل ہو
لب پر ہو ترا نام تصور ترا دل میں
لینے مجھے آئی سرِ بالیں جو اجل ہو
رحمت کی نظرؔ شافعِ امت مری جانب
محشر میں کہ جب وقتِ مکافاتِ عمل ہو
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی