محمد تابش صدیقی
منتظم
ہم لوگ سو گئے تھے، کوئی جگا رہا ہے
جذبے جو مر گئے تھے ان کو جِلا رہا ہے
ہمت بندھا رہا ہے، محشر اٹھا رہا ہے
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے
وہ دور لگ رہا تھا، اب پاس آ رہا ہے
آنکھوں میں کھُب رہا ہے، دل میں سما رہا ہے
شفقت کا ابر بن کر، روحوں پہ چھا رہا ہے
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے
لو، بامِ آرزو پر ، وہ چاند آ رہا ہے!
مکھڑے کو دیکھتے ہو؟ گل مسکرا رہا ہے!
باتوں کو سن رہے ہو؟ موتی لُٹا رہا ہے!
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے!
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
جذبے جو مر گئے تھے ان کو جِلا رہا ہے
ہمت بندھا رہا ہے، محشر اٹھا رہا ہے
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے
وہ دور لگ رہا تھا، اب پاس آ رہا ہے
آنکھوں میں کھُب رہا ہے، دل میں سما رہا ہے
شفقت کا ابر بن کر، روحوں پہ چھا رہا ہے
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے
لو، بامِ آرزو پر ، وہ چاند آ رہا ہے!
مکھڑے کو دیکھتے ہو؟ گل مسکرا رہا ہے!
باتوں کو سن رہے ہو؟ موتی لُٹا رہا ہے!
کوہِ صفا سے کوئی، ہم کو بلا رہا ہے!
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ