نوید ناظم
محفلین
نفرت ایک پاتال ہے جس میں انسان ایک بار گِر جائے تو گرتا چلا جاتا ہے۔ نفرت کی آگ انسان کا سینہ اور مستقبل جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ نفرت کرنے والا انسان زندگی میں سکون سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جسے لوگ اچھے نہ لگتے ہوں بھلا وہ لوگوں میں خوش کیسے رہ سکتا ہے۔ جو دل دعا دینا نہ جانتا ہو' وہ دل چَین میں کیونکر آئے۔ جو دوسروں کو قرار میں دیکھ کر بے قرار ہو جائے اس کا مقدر بے چینی کے سِوا کیا ہو گا۔ قدرت نے زندگی میں کچھ اصول طے کر دیے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہو گا اور نفرت کا نتیجہ بے سکونی ہے۔۔۔۔ بےچینی ہے۔۔۔۔ محرومی اور ناکامی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو انسان سے محبت کا ذوق چھین لیتا ہے۔۔۔۔ انسان کا اندر' ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ وہ ہر اس شخص کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے جس سے اسے نفرت ہے اور یہی بات اسے ناکامی سے دوچار کردیتی ہے۔ کہتے ہیں انسان اس وقت تک سُکھی نہ ہو گا جب تک کہ وہ سب کو سُکھی دیکھنا نہ چاہے۔۔۔۔ دوسروں کو کامیاب دیکھ کر خوش ہونے والا ہی کامیاب ہے۔ نفرت ایک کینسر ہے جو انسان کے اندر پھیلتا ہے اور اس کا باطن چاٹ جاتا ہے۔ نفرت' فرد سے لے کر قوموں' صوبوں سے لے کر ملکوں اور مسلکوں سے لے کر مزہبوں تک پھیل جاتی ہے۔۔۔۔ یہ وہ آگ ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جہنم' حسد اور نفرت کی آگ سے ہمیشہ پناہ مانگنی چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلِ وسلم نے محبت اور محبت کے عمل کو پسند فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ نے احد پہاڑ کے متعلق فرمایا کہ یہ احد پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔ پتھروں سے بھی محبت کرنے والی ہستی بھلا انسانوں سے نفرت کا عمل کیونکر قبول فرمائیں گے۔ دنیا میں سلامتی کے ساتھ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ محبت کے ساتھ رہا جائے' نفرت کا عمل ترک کیا جائے۔۔۔۔ نفرت آنکھوں کے لیے حجاب اور دل کے لیے عزاب ہے' اس سے نکلا جائے' توبہ کی جائے۔۔۔۔ اس بات کا اعادہ' ارادہ اور وعدہ کیا جائے کہ ہم کسی سے نفرت نہیں کریں گے' ہم کسی سے حسد نہیں کریں گے۔ کہتے ہیں کہ دنیا ایک مہمان خانہ ہے' ایک پردیس ہے اور یوں ہم مہمان اور پردیسی۔۔۔۔ ہم خود یہاں نہیں ٹھہر سکتے تو نفرت کو دل میں کیا ٹھہرانا۔ ہم کیوں نہ یہاں سے محبت کو ساتھ لے کر رخصت ہوں۔۔۔ خوش ہو کر اور خوش رہ کر جائیں تا کہ ہمیں اللہ کے حضور ابدی خوشی نصیب ہو سکے !
آخری تدوین: