شاہد بھائی
محفلین
نفرت بھری محبت
قسط نمبر : 1
٭ یہ کہانی میرے ایک عزیز دوست کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں جو کہ فرضی نہیں ہے۔ میرے عزیز دوست کہانی میں عبداللہ کے کردار میں نظر آئیں گے۔شام کا وقت تھا۔ اکیڈمی کے سبھی طالبہ اپنے اپنے لیکچر لے رہے تھے۔ سب علم کے سمندر کو سمیٹنے میں مگن تھے لیکن کلاس میں ایک لڑکا ایسا بھی تھا جو کسی اور ہی خیال میں غوطے کھا رہا تھا۔ اس کا دھیان ٹیچر کی بجائے کسی اور ہی واقعہ کے گرد گھوم رہا تھا۔ ٹیچر مسلسل کتاب پر نظر رکھی ہوئی تھیں اس لیے اُس لڑکے کو دیکھ نہیں پائی تھیں مگر کلاس میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جس کا دھیان اُس کھوئے ہوئے لڑکے کی طرف تھا۔دوسرے ہی لمحے اُس کی شوخ آواز کلاس میں گونج اُٹھی:۔
”مس!…… آج کلاس میں کوئی بہت پریشان ہے“ لڑکی کی چنچل آواز اُس لڑکے کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ چونک اُٹھا۔ ٹیچر نے اُس لڑکی کو دیکھا اور پھر اُس لڑکے کی طرف دیکھا جس کی طرف لڑکی نے اشارہ کیا تھا۔ ٹیچر مسکرا دیں۔
”کیا بات ہے عبداللہ …… آج تمہاری اتنی فکر کیوں کی جارہی ہے“ اُس لڑکے کے دوستوں نے اُسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ لڑکا بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ دوسرے ہی لمحے لیکچر ختم ہوگیا اور ٹیچر مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اب سب نے اُس لڑکے یعنی عبداللہ کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ دوسری طرف اُس لڑکی جس کا نام سمینا تھا اُسے بھی لڑکیاں تنگ کرنے لگی۔ وہ لڑکی یعنی سمینا صرف مسکرا دی البتہ عبداللہ حیرت زدہ سا اپنے دوستوں کو دیکھ رہا تھا۔آج جب عبداللہ اپنے گھر لوٹا تو اُس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ پہلے بار اُسے ایسا لگا جیسے اُس کی بھی کوئی فکر کرتا ہے۔ کوئی اُسے بھی نوٹس کرتا ہے۔ بس یہ سب سوچ کر وہ اپنے کمرے میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔
دوسرے دن شام کو اکیڈ می میں اب سمینا کو آواز کسنے کی باری عبداللہ کی تھی۔اس نے اسلامیات کے لیکچر میں با آواز بلند کہا:۔
”مس!…… آج تو چاند زمین پر اتر آیا ہے“ عبداللہ کا یہ جملہ سمینا کے لیے ہے اس میں کوئی شک نہیں تھا کیونکہ آج سمینا سفید رنگ کے موتیوں بھر ے کپڑے میں ملبوس تھی۔ سمینا کے چہرے پرشرم کی ایک لہر دوڑی۔اُس کا چہرہ شر م و حیا سے سرخ ہو چکا تھا۔ ٹیچر صرف مسکرا دی تھیں البتہ باقی دوستوں نے پھر سے عبداللہ اور سمینا کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔آج جب عبداللہ گھر لوٹا تو اُس کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ ناچ رہی تھی لیکن آنے والے دن اُس کے لیے کیا بھیانک صورت حال پیدا کر دیں گے وہ یہ بات نہیں جانتا تھا۔اُسی اکیڈمی میں شام کے وقت عبداللہ کا بڑا بھائی یوسف بھی پڑھتا تھا اور عبداللہ کا بڑا بھائییوسف اُسی اکیڈ می میں صبح بچوں کو سکول بھی پڑھاتا تھا جہاں سب بچے یوسف کو سب اساتذہ سے زیادہ بہترین استاد قرار دیتے تھے۔عبداللہ کے پاؤں کچھ دنوں سے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ اس بات کو یوسف نے بھی محسوس کر لیا اور ایک دن عبداللہ کو لے کر بیٹھ گیا۔
”بتاؤ……آج کل اتنے خوش کیوں نظر آتے ہو“ یوسف نے عبداللہ کوگھورا۔
”خوش ہونے کی بھی کوئی وجہ ہوتی ہے بھائی…… خوش تو بس ویسے ہی ہوا جاتا ہے“ عبداللہ نے بات کو ٹال دیا۔
”نہیں!……اتنی خوشی نہیں ہوا کرتی……کوئی بات تو ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو …… بتاتے ہو یا میں امی پاپا کو بتاؤں“ یوسف نے اب دھمکی دی۔
”اپنے پیار کی خوشی اپنی خوشی ہی ہوتی ہے …… میں جبھی چین سے سوتا ہوں جب وہ خوشی سے سوتی ہے“ عبداللہ نے شرم سے لبریز ہوکر شعر پڑھ دیا اور بھاگ کر کمرے سے نکل گیا۔یوسف کے چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات جنم لینے لگے۔ وہ سمجھ گیا کہ عبداللہ شعر میں اُسے کیا کہہ کر چلا گیا ہے۔
کچھ دن بعدشام کو اکیڈمی میں عبداللہ ریاضی کا لیکچر لینے کمرے میں داخل ہوا تو سمینا کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ وہ شدید غصے میں نظر آرہی تھی۔ عبداللہ حیران رہ گیا:۔
”سر!…… انہیں پوچھے یہ چاند کون ہے“ سمینا نے انتہائی ناراضگی کے ساتھ کہا۔
”سر!…… مگر ہوا کیا ہے“ عبداللہ حیرت زدہ تھا۔
”کچھ نہیں! …… آپ دروازہ بند کرؤ اور لیکچر شروع کرتے ہیں“ سر نے بات سمیٹ دی اور پھرریاضی کا لیکچر شروع ہوگیا۔ عبداللہ کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔سمینا کا لہجہ آج اتنہائی سرد اور خشک تھا۔ اگلے ہی لیکچر میں سمینا عبداللہ سے الجھ پڑی:۔
”مس!…… ان سے پوچھیں تو سہی یہ چاند ہے کون“ سمینا نے مس کے ذریعے پھر عبداللہ کو مخاطب کیا۔
”مس!……آخر بتائیں تو بات کیا ہے“ عبداللہ اب بھی حیران نظر آرہا تھا۔
”مس!…… مجھے پوری اکیڈمی میں چاند نام سے مشہور کر دیا گیا ہے …… سب مجھے چڑاتے ہیں …… اگر ایسے ہی چلتا رہاتو میں پرنسپل سے شکایت کر دوں گی“ سمینا کی بات سن کر عبداللہ کے چہرے پر بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اُسے یاد آگیا کہ کچھ دن پہلے اُس کا بھائی بھی اُس سے کافی ناراض تھا اور اب سمینا بھی اُس سے ناراض نظر آرہی تھی۔عبداللہ کو اپنی محبت کی شمع بجھتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ مس نے مسکرا کر عبداللہ کی طرف دیکھا جیسا کہہ رہی ہوں کہ آج کے بعد چاند لفظ کلاس میں نہ کہا جائے۔ عبداللہ کویک لخت سمینا پر شدید غصہ آنے لگا۔ اپنے بھائی کی بات کوبھی نظرانداز کرکے وہ اپنے دل میں سمینا کو بسائے بیٹھا تھا اور آج سمینا کا یہ روپ دیکھ کر اُس کے دل میں جلن کے شدید آثار رونما ہوچکے تھے۔اگلے ہی لیکچر میں اردو کے سر سے عبداللہ پوچھ بیٹھا:۔
”سر یہ ہلال کا معنی کیا ہوتاہے“ عبداللہ کے اس جملے پر سبھی ہنس پڑے جب کہ سمینا شدید غصے میں اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”بیٹا اس کا مطلب چاند ہے“ سر کی اس بات نے وہاں موجود سبھی کے قہقہہ نکالنے کا انتظام کر دیا۔ علینہ جلی بھنی جارہی تھی۔دوسری طرف سر بھی حیران تھے کہ ان کے جملے میں ایسی کونسی بات مزاحیہ تھی جس پر اتنا قہقہہ گونج اُٹھا۔غرض یہ لیکچر ختم ہوا تو سمینا نے عبداللہ کی طرف کھاجانے والی نگاہوں سے دیکھا اور کمرے سے نکل گئی۔ عبداللہ بھی اب محبت کو بھول کر یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب سمینا کو واقعتا پوری اکیڈمی میں بدنام کرنا ہے۔اب تک تو اس کے اپنے بقول وہ چاند کے لفظ سے بدنام ہوئی تھی۔ اب حقیقت میں اُسے بدنام کرنے کا فیصلہ عبداللہ کر چکا تھا۔ اُس کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط اس بات کی پرواہ کیے بغیر اگلے دن شام کو عبداللہ اکیڈمی کے برآمدے میں بیٹھا کتاب سے کچھ یاد کررہا تھا۔ تبھی وہاں سے سمینا گزرنے لگی۔ عبداللہ جان بوجھ کر سمینا کی طرف محو ہو کر دیکھنے لگا اور کتاب کے صفحے پلٹتا گیا۔ وہاں موجود سبھی طالبہ یہ دیکھ کر سمینا کا مذاق اُڑانے لگے۔ سمینا غصے کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگی۔ تبھی اُسے سامنے مائرہ آتی نظر آئی۔ مائرہ اُسی اکیڈمی میں صبح کے وقت سکول بھی پڑھتی تھی جہاں عبداللہ کا بھائی یوسف اُس کا استاد تھا۔ یوسف نے مائرہ کو اپنی منہ بولی بہن بھی بنالیا تھا۔ساتھ میں وہ اُس کا بحثیت ٹیچر بھی خیر خواہ تھا۔ مائرہ کو دیکھ کر سمینا کی آنکھیں میں چمک دوڑی۔ وہ سیدھا مائرہ کی طرف آئی اور اُسے ایک ایک کرکے ساری باتیں بتانے لگیں۔ وہ ساری باتیں جو اب تک اُس کے اور عبداللہ کے درمیان ہوئی تھیں۔ مائرہ حیرانگی سے یہ سب کچھ سنتی رہی۔ وہ تو یوسف کی وجہ سے عبداللہ کو بھی ایک نیک انسان سمجھتی تھی لیکن عبداللہ کا یہ روپ دیکھ کر مائرہ حیران ہی ہوسکتی تھی۔ وہ حیران تھی کہ ایک طرف اُس کے استاد یوسف جو کہ نیک اور نمازی اور دوسری طرف اُن کا اپنا بھائی عبداللہ لڑکیوں کو تنگ کرنے والا۔ یہ سب کچھ اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اگلے دن صبح سکول کے لیے نکل پڑی۔ سکول پہنچ کر اُس نے کلاس روم کا رخ کیا۔ اُسی وقت عبداللہ کا بڑا بھائی یوسف کلاس میں داخل ہوا:۔
”السلام علیکم بچوں …… بتاؤ آپ نے آج کیا پڑھنا ہے“ یوسف نے جلدی سے کہا۔سب نے کتابیں نکال لیں۔ یوسف نے سبق پڑھا دیا۔ آخر مائرہ کو وقت مل ہی گیا۔ وہ آہستہ سے یوسف کے قریب آئی۔
”سر …… میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں“ مائرہ نے آہستہ سے یوسف کے کان میں کہا۔
”بولو میری چھوٹی بہنا“ یوسف نے معمول کے مطابق اُسے پیار سے پکارتے ہوئے کہا۔
”سر وہ آپ کا بھائی“ یہ کہتے ہوئے مائرہ نے مکمل تفصیل یوسف کو کہہ سنائی۔ یوسف کا چہرہ انتہائی حد تک سرخ ہو چکا تھا۔ اُسے اپنے بھائی سے اس قدر گھٹیا کام کی اُمید قطعاً نہیں تھی۔ اب تک تو وہ محبت کے راغ الاپ رہا تھا مگر اب کسی لڑکی کو چھیڑنا،اُسے تنگ کرنا یہ کسی بھی دھرم،ذات اور تہذیب میں جائز نہیں تھا۔اُس دن یوسف جب گھر پہنچا تو اُس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے بھائی کو پکارا:۔
”عبداللہ!!!“ یوسف کی زور دار آواز عبداللہ کی سماعت میں گونجی۔ وہ ہڑبڑا کر اُس کی طرف آیا۔ تبھی ایک زناٹے دار تھپڑ عبداللہ کے گال کی طرف آنے لگا لیکن اُس تھپڑ کو عبداللہ اور یوسف کی ماں نورین نے اپنے ہاتھ سے روک لیااور گرج دار آواز میں بولیں:۔
”دماغ تو ٹھیک ہے یوسف…… اپنے چھوٹے بھائی پر ہاتھ اُٹھا رہے ہو“ نورین کا لہجہ انتہائی گرم تھا۔
”امی آپ کو پتا نہیں ہے کہ اس جاہل نے کیا کام کیاہے …… ساری حدیں پار کر دی ہیں ……اکیڈمی میں ایک لڑکی کے ساتھ چکر چل رہاہے اِس کا ……اور چکر بھی کیا ……یہ تو اُس لڑکی کو روز چھیڑتا ہے“ یوسف بھنائے ہوئے انداز میں کہتا جارہا تھا۔
”لیکن امی …… وہ لڑکی پہلے مجھے چھیڑ ی تھی…… میں کلاس میں خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا…… اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ کلاس میں کوئی پریشان ہے …… میں نے اُسے کچھ نہیں کہا تھا“ عبداللہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
”تمہارے مسئلے کا حل تو میں نکالتی ہوں …… میں آج ہی تمہاری اکیڈمی آرہی ہوں“ نورین نے آخر فیصلہ سنا دیا۔ یوسف غصیلے انداز میں وہاں سے نکل گیا۔ عبداللہ بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اب شام کو کیا ہونے والی تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭