نفرت سے پھول پیار کے کھلتے نہیں کبھی

الف عین
محمد عبدالرؤوف
شکیل احمد خان23
عظیم
----------
نفرت سے پھول پیار کے کھلتے نہیں کبھی
پانی سے جب چراغ بھی جلتے نہیں کبھی
-----------
ہوتا ہے دل میں درد تو بہتے ہیں اشک بھی
چشمے بنا سبب یہ ابلتے نہیں کبھی
----------
نفرت کے تیر آپ نے دل میں چبھو دیئے
ایسے چھپے جو زخم ہوں سلتے نہیں کبھی
-----------
تعریف ہو زبان پہ دل میں ہو بغض بھی
ایسے وفا کے پھول تو کھلتے نہیں کبھی
--------
سچا ہے جن کا عشق تو ان کو ہو خوف کیوں
چھپ چھپ کے اپنے یار سے ملتے نہیں کبھی
-----------
ارشد وبالِ جان یہ تیری خطا سے ہے
لمحے یہ اضطراب کے ٹلتے نہیں کبھی
-----------
 
عبدالرؤوف بھائی یہ قوافی محدود ہیں ۔ قوافی کے تین گروپ ہیں تین غزلیں بنانا پڑیں گی آہستہ آہستہ ۔کچھ قوافی آپ کے ذہن میں آئیں تو شکر گزار ہوں گا۔ ایک دوسری غزل لکھی ہے اس کو ذرا دیکھ لیں
 
Top