عبدالحسیب
محفلین
جرمن ماہرینِ نفسیات کا ایک مکتب جسے وحدتوں کی نفسیات Gestalt Psychology یا نفسیاتِ تشاکلیConfiguration Psychology کہا جاتا ہے اُس حقیقت کے ثبوت میں نہایت ہی زوردار اور یقین افروز تجرباتی شواہد بہم پہنچاتا ہے کہ خارجی دنیا کے متعلق انسان کا علم وحدتوں کی شکل اختیار کرتا ہے اس مکتبِ نفسیات کا کہنا یہ ہے کہ ذی شعور کردار کے گہرے مطالعہ سے یہ بات آشکار ہو جاتیہے کہ اس میں معرفت یا پہچان حسیات کے سلسلہ سے بلند اور بالا ہو کر کام کرتی ہے۔ یہ معرفت یا پہچان اشیاء کے مادی ، مکانی یا علتی تعلق کے بارہ میں شعور کا علم یا اندازہ ہوتا ہے یعنی انسانی شعور مختلف اشیاء کے ایک بے ترتیب مجموعہ سے بعض اشیاء کو جو اس کے مقصد کے پیشِ نظر ایک وحدت بناتی ہے چُن لیتا ہے اس مکتبِ نفسیات کے متعلق اقبال لکھتا ہے۔؏"تا ہم اس خیال سے کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ شاید جرمنی کا نیا مکتبِ نفسیات جسے نفسیاتِ تشاکلی کہا جاتا ہے نفسیات کو ایک آزاد اور مستقل علم کی شکل دینے میں کامیاب ہو جائے اور اسی طرح سے شاید ابداعی ارتقاء Emergent Evolution کا نظریہ بھی آخر کار حیاتیات کی آزادی اور استقلال کا باعث بن سکے۔"
کرداریت Behaviourism اور منتقی اثباتیت Logical Positivism اور اس قسم کے دوسرے سطحیت پسند فلسفے جو فلسفہ کے اس عالمگیر انحطاط کے دور میں حشرت الارض کی طرح پیدا ہو رہے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ان کے منکرین شعور موجدوں اور مبلغوں کی نگاہ میں ابھی تک انسان کے حسی تجربات کی وجدانی اور مابعد الطبعاتی بنیاد پر نہیں پڑی ۔
چونکہ ہمارے وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن ہے , اقبال نے وجدان کو عشق اور جنون اور نظر وغیرہ کے ناموں سے بھی تعبیر کیا ہے۔؏
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
---
خرد کے پاس خبر کے سوا اور کچھ نہیں
ترا علاج نظر کے سوا اور کچھ نہیں
---