سید رافع
معطل
تم یہ سمجھے کہ نفس بدن ہے تیرا
یہ جسم، یہ گوشت یہ تن ہے تیرا
کسی نے کہہ دیا کہ نفس ضمیر ہے تیرا
کسی نے انجانے میں بتا دیا کہ ہمزاد ہے یہ تیرا
رہتا ہے وہ دن رات لیکن الگ ہو سکتا ہے ہمزاد تیرا
تیز اسکی پرواز ہے وہ نفس ہے اصل میں تیرا
کسی نے کہہ دیا کہ نفس اصل میں روح ہے
یہ جسم ہے اور اسکا نفس ایک روح ہے
دو لفظ تھے جدا جن کو ملا دیا اس نے
روح ایک الگ لفظ تھا نفس میں ضم کیا اس نے
کسی نے نفس کو ایک آتا خیال کہا
کوئی اور شئے ہی نہیں، کہا نفس ہے ارادہ تیرا
کوئی کہنے لگا کہ یہی نفس تو دراصل قلب ہے تیرا
بس یہ کھال، یہ گوشت، یہ رگیں نفس تیرا
بہتا ہوا خون، ڈھڑکتا ہوا دل ہے تیرا
تقسیم یہ جہل ہے ہر سو
آو اب تفصیل سنونفس کی
نفس ہے اصل میں لطیف روح کی طرح
دوست صرف ہے ہی یہی روح کا
زوجت میں نفس کی روح ہے
نفس ہے مرد تو روح عورت اسکی
اگر عقل سالم ہے تو دیتا ہوں ایک مثال
کوئی فائدہ نہیں اگر عقل ہی ہے بیکار
ہے عقل اگر مصروف شغل و دجل بننے میں
ہے اگر جینا دن بھر لہو و لعب میں
لغو کام ہی ہو اوڑھنا بچھونا جسکا
کام نہ آئے گی کوئی نفس و روح کے ملاپ کی کوئی مثال
جیسے عورت اصل میں ہے معصوم پیار کرتا ایک جذبہ
ایسے ہی روح ہے رب کی ثناء کرتا ایک معصوم ولولہ
جیسے مرد ہے مکار بھی، مذبذب بھی اور رب کی ثناء کرتا
ایسے ہی نفس بھی عیار، ملامت اور مطمئن ہوتا
اب سوچ لو کہ ایک معصوم سی پیار کرتی عورت
کیا کچھ دکھ نہ سہے گی ایک مرد مکار کے نکاح میں
وہ پیا ر کی باتیں کرے گی یہ مکر کرے گا
ہر ہر لمحہ اسکا دل توڑ دے گا
بالآخر وہ سکڑ کر تقریبا مر ہی جائے گی
یہ اپنی جان پر ظلم کر کے جیت جائے گا
حالانکہ جب یہ مرے گا اس کو پتہ چل جائے گا
جب سکڑی ہوئی اس معصوم پری کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد مکاری کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
سخت اذیت میں ہو گا، چھپتا پھرے گا ہر کونے
بالآخر امین پری لے کر پابند سلاسل کریں گے اسکو
ذلت کا مقام جائے قید ہو گی اس مرد کی
اب تذکرہ ہو کچھ اس دوسری عورت کا
اس معصوم پیار بھرے گنگناتے دل کا
اس عورت کے خوابوں کا کیا ہو گا
جس کا مرد ہو مذبذب ہمیشہ
کبھی مار کبھی پیار اپنی عورت سے ہو کرتا
وہ معصوم کلی کبھی پھیلے گی کبھی سکڑ جائے گی
کوئی پھول کھلے گا، کوئی مرجھا جائے گا
عجیب بدنما سا، خوشنما سا باغیچہ ہو گا
جب الجھی ہوئی اس معصوم پری کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد ندامت کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
سخت افسوس میں ہو گا، موقع چاہے گا ایک اور
بالآخر امین جان لے کر پابند سلاسل کریں گے اسکو
ذلت کا مقام ملے یا ہو عزت کی جگہ اکرام ہو اس کا
طے کرے گا یہ بابا اس معصوم پری کا
ہے وقت مختصر، کر لو تذکرہ اس تیسری عورت کا
بس اس عورت کے پیار کے اطمینان کا تصور کر لو
جس کا شوہر ہو خوب دلجمعی و تسلی سے پیار ہو اس سے کرتا
ثناء کرتے ہوں گنگناتے ہوں دونوں مل کر
ایک دوسرے کو قصے بابا کے سناتے ہوں مل کر
اس پیار کرتی، گیت میں مگن عورت نے
کر لیا ہو اسیر اسی بابا کی محبت کے نغمے کا اپنے مرد کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد خوشی کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
حد مسرت میں ہو گا یہ بھی اور پری بھی
بالآخر امین پری لے جائیں گے
عزت کی جگہ اس مرد کا اکرام ہو گا
بابا کہہ دیں گے ہو جا تو میری جنتوں میں داخل مطمئن ہو کے
اب جب تم جان گئے کہ روح ہے ہر دم مسرور نغمہ توحید سے
تو یہ بھی جان لو کہ ہر ہر عورت ہے جہاں میں مشغول ایک نغمے میں
ہر عورت ہوتی ہے خوش اس نغمے سے
جو پنہاں ہے اسکی ذات کے کونے کونے میں
اگر ہو کسی نفس کو دیکھنا کہ وہ امارہ ہے، لوامہ یا مطمئنہ
دیکھ لو اسکی عورت اور بچوں کو اس کے گھر میں
اگر اس کی عورت ہے غصہ کرتی، مکر، چوری، زنا کرتی ہے
جان لو کہ اس گھر کا مرد کے نفس ہے مبتلا امارہ
اگر کسی گھر کی عورت اجڑی سی، بے زار سی، بے رنگ سی لگتی
جان لو کہ اس گھر کے مرد کا نفس ہے مبتلا لوامہ
اگر کسی گھر کی عورت ہو گنگناتی، مسرور و مشکور، نعمتیں بانٹتیں
جان لو کہ اس گھر کے مرد کا نفس ہے مطمئنہ
یہی وجہ ہے کہ کہا رسول نے
وہ مرد ہے سب سے اچھا جو ہے
جو اپنے گھر والوں سے ہو سب سے اچھا
رب نے ہر شئے پیدا کی ہے جوڑا
نفس ہے روح کا جوڑا
کیا تم نے کبھی دیکھا کہ شاہین ہو چونٹی کا جوڑا
یا تم دیکھتے ہو کہ عقاب بنے کسی ہاتھی کا جوڑا
یہ ممکن ہی نہیں کہ مزہ ہو، لطف ہو بازاور بندر کے جوڑے میں
سرور جب ہی ہوتا ہے جب ہم نوع ہو جوڑا
مرد کو سکون ملتا ہے عورت کے جوڑے سے
شیر خوش ہوتا ہے شیرنی کے جوڑے سے
اور سب کو معلوم ہے کہ جوڑے میں نوع ایک ہوتی ہے
لیکن ہوتی ہیں صلاحیت مختلف
جوڑے میں ہر ایک کا متعین دائرہ کار ہوتا ہے
سو بے شک روح اور نفس کی نوع ہے ایک
لیکن انکا دائرہ کار جدا ہے
روح ہے پر نغمہ توحید سے
ہے لیکن غلام نفس کے کرتوت کی
جوں جوں نفس نغمہ توحید گنگناتا جائے گا
روح کی طرح رب کے پھیلے بھیدوں کو سمجھ پائے گا
روح کو رکھا کہ نفس کو معلوم رہے کہ کیا گنگنا ہے
نفس کو ہر لمحہ معلوم اس نے کیا سر چھیڑا
کیا وہ ہے امارہ، لوامہ یا بنا چکا اس کو مطمئنہ
نفس کو رکھا کہ ارادے کی خلقت ہو پائے
یہ جان لے بنی نوع کہ وہ اشرف کیوں پائی
یہی نفس کے گنگنانے کا نظارہ ہے رب نے دیکھنا
یعنی جیسے عالم ناسوت میں مرد عورت کو دیکھتا ہے گنگناتا
فریفتہ ہوتا ہے مرد اسی عورت پر جو گنگنائے خوشی سے
بھر دے رنگ و روشنی اس کے جہاں میں
ایسی ہی رب چاہتا کہ تو دیکھ لے عالم مثال میں
گنگنائے جب نفس تیرا ہر پل روح کے ساتھ
تو بھی دیکھ لے خواب میں رب کو اسکی عظمت کے ساتھ
اگر بن جائے یہ نفس سہیلی روح کی
تو اسکی پرواز ہے بلند عالمِ جبروت تک
اس سے قبل تو دیکھ سکے گا عالم ملکوت کو بھی
عالم لاہوت اور عالم ارواح کو بھی
نغمہ روح دکھا دے گا تیرے نفس کو
عرش بھی، لوح بھی اور قلم بھی
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تو خائف ہے اب تک گھر والی سے
نہ تجھے ماں کی سمجھ، نہ ہے بہن کے رشتے کا پاس
تیری آنکھوں سے محفوظ نہیں کسی کی گھر والی
تجھ کو تو نہ ڈھنگ ہے اس دنیا میں رہنے کا
تو بنے گا دوست کیسے نفس روح کا!
ایک سائنس کے طالب نے کہا نفس خلیہ ہے کیا؟
یا یہ ہے ایٹم، یا کوئی ذرہ ہگس بوسن کا؟
کیا یہ ڈی این اے ہے یا نیوکلس ایٹم کا؟
مادہ ہے نفس یا یونہی وقت کا ضیاع ہے یہ سب فلسفہ
جب نظر آتا نہیں لارج ہیڈرون کولائیڈر میں
کوئی چیز نہیں نفس ہوتا
نظر کوئی جذبہ تجربہ گاہ میں نہیں آتا
درد ہوتا ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا
نیت ہوتی ہے لیکن سجھائی دیتی نہیں
مسکراتے چہرے کے پیچھے ایک غم ہے عیاں ہوتا نہیں
آنسو چھلکے جاتے ہیں لیکن محبت نمایاں ہوتی نہیں
جان لو نفس نہیں ہے مادہ
جیسے ہر چیز کا ایک باطن ہوتا
تہہ در تہہ ہے انسان کا وجود ہوتا
اگر کوئی نام لے کر پکارے تم کو
تو کیا کہو گے کہ پکارا ہے کھال کو میری!
یا سمجھ جاؤ گے گوشت کو بلایاہے میرے!
یا پھر رگ و نسوں کے لیے نداء جانو گے اسکو!
یہ کبھی نہ سمجھو گے کہ خوں کو بلایا میرے اس نے!
حالانکہ یہ سب تہیں ہیں مطلب جب نام لیا جائے
اسی طرح جب سب مادے کی تہیں ہوتی ہیں تمام
پھر جذبوں کا ایک سمندر ہوتا ہے شروع
نفس ہے اس سمندر کی پہلی تہہ
اس نفس میں پلتے ہیں ارادے کے طوفاں
ہاں یہی وہ سمندر ہے جہاں اٹھتی ہیں نیتوں کی طغیانی
اگر یہ نفس کا سمندر رہے پر سکوں
مالا جَپْتا رہے توحید کی ہر سو
تو اسکی زوج کا سمندر بھی رہے مسرور
اس مطمئن جوڑے کو نظر آتی ہے تجلی عالم ناسوت میں
تم کو معلوم ہے طلاطم میں نظر کچھ آتا نہیں
طوفاں برپا ہو سمندر میں تو حواس رہتے نہیں
ہنگامہ برپا ہو اعضاء میں تو ترنم مفقود
سر کے پیچھے کی عقل ہو اگر تیز جھولے پر
اگر بدن ہو پڑا ایک ٹی وی کے سامنے
موبائل پر اپنے انگھوٹے دوڑاتے
تیز قہقہ ہو، یا نفرت کا اظہار
غیبت کا مد و جزر ہو یا کذب کا اضطراب
ایسے اعضاء کے ساتھ سر کی عقل قائم رہ نہیں سکتی
جب سر کی عقل نہیں قائم، تو قلب کی عقل پنپ نہیں سکتی
جب عقل ہی نہ ہو تو نفس میں ہو گا طوفاں
بپھرتی موجیں ہو گی ، سنائی نہ دے گا روح کی نغمگی
مدہم پڑتی جائے گی توجہ رحمت کی تجلی
تجھ پر لازم ہے کہ کر اپنی عقل کے سکھ کا التزام
اپنے گھر والوں کو تو خوش رکھ
صبر سے رہ، جی محبت کے ساتھ
کچھ نقصان اٹھا لے لیکن دور ہو جا
ہر اس نفس سے جس میں ہے موجوں کی تغیانی
دور ہو جا اس صحبت سے، جو غصے میں بگولا
ڈھونڈ وہ نفس جو گنگنا رہے ہیں نغمہ توحید
ہرگز نہ بیٹھ ان ساحلوں پر
جہاں بے چین نفسوں کا گزر ہو
ہر مسجد، مدرسے اور خانقاہ سے
دیکھ لے کہ کیا وہ نفس پر تشدد کرتے
بھاگ ایسے ماحول ایسی صحبت سے
تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے
جب وہ راضی ہو نغمہ توحید گنگنا
آہستہ آہستہ اس کے طوفاں کو کم کر
دیکھ خوب سمجھ لے کہ جبر ہے حرام
اپنے نفس اور دیگر کے نفس کا کر احترام
تشدد سے یہ راہ طے ہو نہیں سکتی
نفس کی ظغیانی کم ہو نہیں سکتی
علم کو اپنا ہتھیار بنا
توحید کا علم جان اور دن رات اس میں لگا
توحید کا علم ہی کرسکتا ہے نفس کو راضی
مشقت سے ہوا نہ فائدہ کل نہ آج ہو گا یہ جان
نرمی میں جو رکھا ہے رب نے سختی میں نہ رکھا
بس تجھ پر لازم ہے کہ نفس کو امارہ سے مطمنہ بنا
قبل اس کے کہ بابا کے امین آجائیں
تجھ سے اپنی بیٹی مانگ کر لے جائیں
یہ جسم، یہ گوشت یہ تن ہے تیرا
کسی نے کہہ دیا کہ نفس ضمیر ہے تیرا
کسی نے انجانے میں بتا دیا کہ ہمزاد ہے یہ تیرا
رہتا ہے وہ دن رات لیکن الگ ہو سکتا ہے ہمزاد تیرا
تیز اسکی پرواز ہے وہ نفس ہے اصل میں تیرا
کسی نے کہہ دیا کہ نفس اصل میں روح ہے
یہ جسم ہے اور اسکا نفس ایک روح ہے
دو لفظ تھے جدا جن کو ملا دیا اس نے
روح ایک الگ لفظ تھا نفس میں ضم کیا اس نے
کسی نے نفس کو ایک آتا خیال کہا
کوئی اور شئے ہی نہیں، کہا نفس ہے ارادہ تیرا
کوئی کہنے لگا کہ یہی نفس تو دراصل قلب ہے تیرا
بس یہ کھال، یہ گوشت، یہ رگیں نفس تیرا
بہتا ہوا خون، ڈھڑکتا ہوا دل ہے تیرا
تقسیم یہ جہل ہے ہر سو
آو اب تفصیل سنونفس کی
نفس ہے اصل میں لطیف روح کی طرح
دوست صرف ہے ہی یہی روح کا
زوجت میں نفس کی روح ہے
نفس ہے مرد تو روح عورت اسکی
اگر عقل سالم ہے تو دیتا ہوں ایک مثال
کوئی فائدہ نہیں اگر عقل ہی ہے بیکار
ہے عقل اگر مصروف شغل و دجل بننے میں
ہے اگر جینا دن بھر لہو و لعب میں
لغو کام ہی ہو اوڑھنا بچھونا جسکا
کام نہ آئے گی کوئی نفس و روح کے ملاپ کی کوئی مثال
جیسے عورت اصل میں ہے معصوم پیار کرتا ایک جذبہ
ایسے ہی روح ہے رب کی ثناء کرتا ایک معصوم ولولہ
جیسے مرد ہے مکار بھی، مذبذب بھی اور رب کی ثناء کرتا
ایسے ہی نفس بھی عیار، ملامت اور مطمئن ہوتا
اب سوچ لو کہ ایک معصوم سی پیار کرتی عورت
کیا کچھ دکھ نہ سہے گی ایک مرد مکار کے نکاح میں
وہ پیا ر کی باتیں کرے گی یہ مکر کرے گا
ہر ہر لمحہ اسکا دل توڑ دے گا
بالآخر وہ سکڑ کر تقریبا مر ہی جائے گی
یہ اپنی جان پر ظلم کر کے جیت جائے گا
حالانکہ جب یہ مرے گا اس کو پتہ چل جائے گا
جب سکڑی ہوئی اس معصوم پری کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد مکاری کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
سخت اذیت میں ہو گا، چھپتا پھرے گا ہر کونے
بالآخر امین پری لے کر پابند سلاسل کریں گے اسکو
ذلت کا مقام جائے قید ہو گی اس مرد کی
اب تذکرہ ہو کچھ اس دوسری عورت کا
اس معصوم پیار بھرے گنگناتے دل کا
اس عورت کے خوابوں کا کیا ہو گا
جس کا مرد ہو مذبذب ہمیشہ
کبھی مار کبھی پیار اپنی عورت سے ہو کرتا
وہ معصوم کلی کبھی پھیلے گی کبھی سکڑ جائے گی
کوئی پھول کھلے گا، کوئی مرجھا جائے گا
عجیب بدنما سا، خوشنما سا باغیچہ ہو گا
جب الجھی ہوئی اس معصوم پری کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد ندامت کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
سخت افسوس میں ہو گا، موقع چاہے گا ایک اور
بالآخر امین جان لے کر پابند سلاسل کریں گے اسکو
ذلت کا مقام ملے یا ہو عزت کی جگہ اکرام ہو اس کا
طے کرے گا یہ بابا اس معصوم پری کا
ہے وقت مختصر، کر لو تذکرہ اس تیسری عورت کا
بس اس عورت کے پیار کے اطمینان کا تصور کر لو
جس کا شوہر ہو خوب دلجمعی و تسلی سے پیار ہو اس سے کرتا
ثناء کرتے ہوں گنگناتے ہوں دونوں مل کر
ایک دوسرے کو قصے بابا کے سناتے ہوں مل کر
اس پیار کرتی، گیت میں مگن عورت نے
کر لیا ہو اسیر اسی بابا کی محبت کے نغمے کا اپنے مرد کو
لینے آئیں گے بابا کے بھیجے ہوں امین
یہ مرد خوشی کا ہر ہر نمونہ دکھائے گا اس لمحے
حد مسرت میں ہو گا یہ بھی اور پری بھی
بالآخر امین پری لے جائیں گے
عزت کی جگہ اس مرد کا اکرام ہو گا
بابا کہہ دیں گے ہو جا تو میری جنتوں میں داخل مطمئن ہو کے
اب جب تم جان گئے کہ روح ہے ہر دم مسرور نغمہ توحید سے
تو یہ بھی جان لو کہ ہر ہر عورت ہے جہاں میں مشغول ایک نغمے میں
ہر عورت ہوتی ہے خوش اس نغمے سے
جو پنہاں ہے اسکی ذات کے کونے کونے میں
اگر ہو کسی نفس کو دیکھنا کہ وہ امارہ ہے، لوامہ یا مطمئنہ
دیکھ لو اسکی عورت اور بچوں کو اس کے گھر میں
اگر اس کی عورت ہے غصہ کرتی، مکر، چوری، زنا کرتی ہے
جان لو کہ اس گھر کا مرد کے نفس ہے مبتلا امارہ
اگر کسی گھر کی عورت اجڑی سی، بے زار سی، بے رنگ سی لگتی
جان لو کہ اس گھر کے مرد کا نفس ہے مبتلا لوامہ
اگر کسی گھر کی عورت ہو گنگناتی، مسرور و مشکور، نعمتیں بانٹتیں
جان لو کہ اس گھر کے مرد کا نفس ہے مطمئنہ
یہی وجہ ہے کہ کہا رسول نے
وہ مرد ہے سب سے اچھا جو ہے
جو اپنے گھر والوں سے ہو سب سے اچھا
رب نے ہر شئے پیدا کی ہے جوڑا
نفس ہے روح کا جوڑا
کیا تم نے کبھی دیکھا کہ شاہین ہو چونٹی کا جوڑا
یا تم دیکھتے ہو کہ عقاب بنے کسی ہاتھی کا جوڑا
یہ ممکن ہی نہیں کہ مزہ ہو، لطف ہو بازاور بندر کے جوڑے میں
سرور جب ہی ہوتا ہے جب ہم نوع ہو جوڑا
مرد کو سکون ملتا ہے عورت کے جوڑے سے
شیر خوش ہوتا ہے شیرنی کے جوڑے سے
اور سب کو معلوم ہے کہ جوڑے میں نوع ایک ہوتی ہے
لیکن ہوتی ہیں صلاحیت مختلف
جوڑے میں ہر ایک کا متعین دائرہ کار ہوتا ہے
سو بے شک روح اور نفس کی نوع ہے ایک
لیکن انکا دائرہ کار جدا ہے
روح ہے پر نغمہ توحید سے
ہے لیکن غلام نفس کے کرتوت کی
جوں جوں نفس نغمہ توحید گنگناتا جائے گا
روح کی طرح رب کے پھیلے بھیدوں کو سمجھ پائے گا
روح کو رکھا کہ نفس کو معلوم رہے کہ کیا گنگنا ہے
نفس کو ہر لمحہ معلوم اس نے کیا سر چھیڑا
کیا وہ ہے امارہ، لوامہ یا بنا چکا اس کو مطمئنہ
نفس کو رکھا کہ ارادے کی خلقت ہو پائے
یہ جان لے بنی نوع کہ وہ اشرف کیوں پائی
یہی نفس کے گنگنانے کا نظارہ ہے رب نے دیکھنا
یعنی جیسے عالم ناسوت میں مرد عورت کو دیکھتا ہے گنگناتا
فریفتہ ہوتا ہے مرد اسی عورت پر جو گنگنائے خوشی سے
بھر دے رنگ و روشنی اس کے جہاں میں
ایسی ہی رب چاہتا کہ تو دیکھ لے عالم مثال میں
گنگنائے جب نفس تیرا ہر پل روح کے ساتھ
تو بھی دیکھ لے خواب میں رب کو اسکی عظمت کے ساتھ
اگر بن جائے یہ نفس سہیلی روح کی
تو اسکی پرواز ہے بلند عالمِ جبروت تک
اس سے قبل تو دیکھ سکے گا عالم ملکوت کو بھی
عالم لاہوت اور عالم ارواح کو بھی
نغمہ روح دکھا دے گا تیرے نفس کو
عرش بھی، لوح بھی اور قلم بھی
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تو خائف ہے اب تک گھر والی سے
نہ تجھے ماں کی سمجھ، نہ ہے بہن کے رشتے کا پاس
تیری آنکھوں سے محفوظ نہیں کسی کی گھر والی
تجھ کو تو نہ ڈھنگ ہے اس دنیا میں رہنے کا
تو بنے گا دوست کیسے نفس روح کا!
ایک سائنس کے طالب نے کہا نفس خلیہ ہے کیا؟
یا یہ ہے ایٹم، یا کوئی ذرہ ہگس بوسن کا؟
کیا یہ ڈی این اے ہے یا نیوکلس ایٹم کا؟
مادہ ہے نفس یا یونہی وقت کا ضیاع ہے یہ سب فلسفہ
جب نظر آتا نہیں لارج ہیڈرون کولائیڈر میں
کوئی چیز نہیں نفس ہوتا
نظر کوئی جذبہ تجربہ گاہ میں نہیں آتا
درد ہوتا ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا
نیت ہوتی ہے لیکن سجھائی دیتی نہیں
مسکراتے چہرے کے پیچھے ایک غم ہے عیاں ہوتا نہیں
آنسو چھلکے جاتے ہیں لیکن محبت نمایاں ہوتی نہیں
جان لو نفس نہیں ہے مادہ
جیسے ہر چیز کا ایک باطن ہوتا
تہہ در تہہ ہے انسان کا وجود ہوتا
اگر کوئی نام لے کر پکارے تم کو
تو کیا کہو گے کہ پکارا ہے کھال کو میری!
یا سمجھ جاؤ گے گوشت کو بلایاہے میرے!
یا پھر رگ و نسوں کے لیے نداء جانو گے اسکو!
یہ کبھی نہ سمجھو گے کہ خوں کو بلایا میرے اس نے!
حالانکہ یہ سب تہیں ہیں مطلب جب نام لیا جائے
اسی طرح جب سب مادے کی تہیں ہوتی ہیں تمام
پھر جذبوں کا ایک سمندر ہوتا ہے شروع
نفس ہے اس سمندر کی پہلی تہہ
اس نفس میں پلتے ہیں ارادے کے طوفاں
ہاں یہی وہ سمندر ہے جہاں اٹھتی ہیں نیتوں کی طغیانی
اگر یہ نفس کا سمندر رہے پر سکوں
مالا جَپْتا رہے توحید کی ہر سو
تو اسکی زوج کا سمندر بھی رہے مسرور
اس مطمئن جوڑے کو نظر آتی ہے تجلی عالم ناسوت میں
تم کو معلوم ہے طلاطم میں نظر کچھ آتا نہیں
طوفاں برپا ہو سمندر میں تو حواس رہتے نہیں
ہنگامہ برپا ہو اعضاء میں تو ترنم مفقود
سر کے پیچھے کی عقل ہو اگر تیز جھولے پر
اگر بدن ہو پڑا ایک ٹی وی کے سامنے
موبائل پر اپنے انگھوٹے دوڑاتے
تیز قہقہ ہو، یا نفرت کا اظہار
غیبت کا مد و جزر ہو یا کذب کا اضطراب
ایسے اعضاء کے ساتھ سر کی عقل قائم رہ نہیں سکتی
جب سر کی عقل نہیں قائم، تو قلب کی عقل پنپ نہیں سکتی
جب عقل ہی نہ ہو تو نفس میں ہو گا طوفاں
بپھرتی موجیں ہو گی ، سنائی نہ دے گا روح کی نغمگی
مدہم پڑتی جائے گی توجہ رحمت کی تجلی
تجھ پر لازم ہے کہ کر اپنی عقل کے سکھ کا التزام
اپنے گھر والوں کو تو خوش رکھ
صبر سے رہ، جی محبت کے ساتھ
کچھ نقصان اٹھا لے لیکن دور ہو جا
ہر اس نفس سے جس میں ہے موجوں کی تغیانی
دور ہو جا اس صحبت سے، جو غصے میں بگولا
ڈھونڈ وہ نفس جو گنگنا رہے ہیں نغمہ توحید
ہرگز نہ بیٹھ ان ساحلوں پر
جہاں بے چین نفسوں کا گزر ہو
ہر مسجد، مدرسے اور خانقاہ سے
دیکھ لے کہ کیا وہ نفس پر تشدد کرتے
بھاگ ایسے ماحول ایسی صحبت سے
تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے
جب وہ راضی ہو نغمہ توحید گنگنا
آہستہ آہستہ اس کے طوفاں کو کم کر
دیکھ خوب سمجھ لے کہ جبر ہے حرام
اپنے نفس اور دیگر کے نفس کا کر احترام
تشدد سے یہ راہ طے ہو نہیں سکتی
نفس کی ظغیانی کم ہو نہیں سکتی
علم کو اپنا ہتھیار بنا
توحید کا علم جان اور دن رات اس میں لگا
توحید کا علم ہی کرسکتا ہے نفس کو راضی
مشقت سے ہوا نہ فائدہ کل نہ آج ہو گا یہ جان
نرمی میں جو رکھا ہے رب نے سختی میں نہ رکھا
بس تجھ پر لازم ہے کہ نفس کو امارہ سے مطمنہ بنا
قبل اس کے کہ بابا کے امین آجائیں
تجھ سے اپنی بیٹی مانگ کر لے جائیں
آخری تدوین: