راحیل فاروق
محفلین
بنانے والے کے بنانے پہ صدقے جس نے عالم کے گوشے گوشے میں ایک عجیب ہی توازن قائم کر رکھا ہے۔ شر خیر پہ غالب ہے۔ تیرگی کائنات کے رگ و ریشے میں دوڑ رہی ہے اور روشنی ہے کہ کہیں کہیں جھلملا کے رہ جاتی ہے۔ احمق بڑی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں اور داناؤں کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیتے ہیں۔ قہر کی اندھی بجلیاں کڑکتی ہیں تو ارمانوں سے بنے ہوئے نشیمنوں کا حال آنکھوں والوں سے دیکھا نہیں جاتا۔ سچ جتنی دیر میں جوتے کے تسمے باندھتا ہے جھوٹ دنیا کا چکر لگا آتا ہے۔ مگر خیر کے سالک، روشنی کے پروانے، دانائی کے جویندگان، ارمانوں کے دلدادگان اور سچ کے خبطی مرتے نہیں۔ بھلا مر جائیں تو کائنات کی نبض نہ رک جائے؟ یہ پیچ و خم نکل جائے تو ظالم کی درازئِ قامت کا بھرم نہ کھل جائے؟
آج ایک بزعمِ خویش اردو دان شخص کے تنقید کی بابت خیالات نظر سے گزرے تو حالیؔ مرحوم سے لے کر تنویر صاغر تک کئی 'نقاد' یاد آ کے رہ گئے۔ آلِ احمد سرور نے جو دیباچہ محشرِ خیال کا لکھا تھا وہ بھی یاد آیا اور حال ہی میں ایک مقامی شاعر کی کتاب پر ناقدوں کی آرا بھی تصور میں ناچ ناچ گئیں۔ کسی قوم کے ابھرنے سے پہلے ہمیشہ اس کا فن ابھرتا ہے۔ فن کے زوال کے بعد نقد و نظر عروج پاتے ہیں۔ پھر قوم ڈوبتی ہے اور پھر نقد و نظر کی موت واقع ہوتی ہے۔ ہم بحمد اللہ اپنی تاریخ کی اس منزل پہ پہنچ چکے ہیں جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ کوئی کارواں نہیں۔ کوئی سالار نہیں۔ بس ایک دھول اڑ رہی ہے جو راہروؤں کو عبرت دلاتی رہتی ہے کہ
حالیؔ کے معترفین کو یاد ہی نہ رہا کہ حالیؔ کون تھا۔ اس نے مقدمہ کیوں لکھا؟ اس کا مقصود کیا تھا؟
کوئی سنے گا اگر میں کہوں کہ حالیؔ علومِ مشرقیہ کے آفتاب کی وہ آخری کرن تھا جو زوالِ مشرق کے اندھیرے میں بھٹک بھٹک گئی؟ کوئی یاد کرے گا اگر میں یاد دلاؤں کہ حالیؔ اس غالبؔ کا شاگرد تھا جو فرنگیوں کے قصیدے لکھنے پر مجبور ہو گیا تھا اور اس سرسید کا معتقد تھا جس کی آنکھیں انگریزی قمقموں میں چندھیا گئی تھیں؟ کوئی جھٹلائے گا اگر میں دعویٰ کروں کہ حالیؔ کا فکر ایک ہاری ہوئی قوم کو غنیم سے اور زیادہ مرعوب کر گیا؟
میں خودفریب نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ کا مقصود اپنی ذاتِ والا صفات کی بقا تھا اور سرسید کا قوم کی بقا۔ حالیؔ کی نیت پہ بھی مجھے رتی بھر شبہ نہیں۔ انھیں ملت کی فلاح اسی میں معلوم ہوئی جو کسی قدر تھی بھی۔ گویا اقتضائے وقت کے لحاظ سے ان بزرگوں کو معذور قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر بعد میں آنے والے اکثر ناقدین کی عقل پر گریہ کرنے سے مجھے کون روکے؟ یہ وہ دیسی مشاطائیں تھیں جنھوں نے حمام ہائےمغرب سے اکتسابِ ہنر کیا تھا۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ گیسوئے اردو کی بے بی کٹ پر کائنات کا ضمیر انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
مغربی تنقید کی یہ روایت ایسی چلی، ایسی چلی کہ مشرقی جمالیات اور طرزِ احساس کی بنیادیں ہل گئیں۔ ہماری شاعری کا مہتم بالشان محل دھڑام سے نیچے آ رہا اور مشینی ذہنوں کے غوغے میں اس قیامت کا شور بھی گھٹ کر رہ گیا۔
صاحبو، مشرق اور مغرب کا فرق جانتے ہیں آپ؟ ایک یہودی ربی نے یہ گرہ بڑی سادگی سے کھول کے رکھ دی ہے۔ کہتا ہے کہ علم کی بنیاد شک پر نہیں بلکہ حیرت پر ہے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب کے علم کی بنیاد شک پر ہے اور مشرق کا علم حیرت سے کسبِ فیض کرتا ہے۔ مغرب کا فن عقلی ہے اور مشرق کا وجدانی۔ مغرب کا معیار منطق ہے اور مشرق کا جذبہ۔
برا ہو مرورِ زمانہ کا کہ ہماری روایات ہم سے چھن گئیں۔ ہماری اقدار پامال ہو گئیں۔ ہمارے مقلد ہمارے مجتہدوں سے جیت گئے۔ ہمارے احمق ہمارے صاحبانِ فہم و ذکا پر غالب آ گئے۔ ہم بھول گئے کہ ہم مشرقی ہیں۔ ہم نے مغرب کے آلاتِ تنقید سے اپنے ادب کی ایسی جراحی فرمائی کہ مثلہ کرنے والے بھی شرما جائیں۔
غیرت کا لفظ سنا ہو گا آپ نے۔ مللِ اسلامیہ میں کون کافر ہے جو اس لفظ کا مطلب نہ جانتا ہو؟ اس سے متعلق جذبے سے آشنا نہ ہو؟ کیا وجہ ہے کہ انگریزی میں اس لفظ کا ترجمہ موجود نہیں۔ کبھی غور فرمایا آپ نے اس قسم کی باتوں پر؟
یہ حقیقت جھٹلانی مشکل ہے کہ زبان اور ادب معاشرے اور ثقافت کے زیر بار ہوتے ہیں۔ معاشرے میں جو روایات، اقدار اور رسوم پائی جاتی ہیں وہ لغت کی بھی تشکیل کرتی ہیں اور ادب میں بھی معنویت پیدا کرتی ہیں۔ انگریزی میں، اور غالباً تمام یورپی زبانوں میں، غیرت کا مقابل لفظ اس لیے موجود نہیں کہ وہاں یہ مخصوص طرزِ احساس مفقود ہے۔ طرزِ احساس ہی نہ ہو گا تو اس کا اظہار کہاں ہو گا؟
یہ ایک مثال نہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں نظائر اس قسم کے مل جائیں گے۔ قوم جس طرزِ معاشرت پر قائم ہوتی ہے اور جن اقدار کو استوار کرتی ہے وہی اس کی زبان پیدا کرتی ہیں اور وہی اس کے ادب کو جنم دیتی ہیں۔ انھی سے اس کے جذبات کی نیرنگیاں متشکل ہوتی ہیں اور انھی سے اس کی فکر کے زاویے متعین ہوتے ہیں۔
میں جب یہ دیکھتا ہوں تو ہمارے ہاں مغربی طرزِ تنقید کے استیلا کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے اسالیبِ ادب جدا، رنگِ احساس جدا، موضوعات جدا، طرزِ فکر جدا، ہئیتِ ابلاغ جدا، زبان جدا، ثقافت جدا، معاشرت جدا، جغرافیہ جدا، ترجیحات جدا، تاریخِ ادب جدا، ادب پرور جدا، قاری جدا۔ کیا قہر ہے کہ ہئیت پسندی، ساختیات، حقیقت پسندی، پس ساختیات، جدیدیت وغیرہ جیسی الا بلا ہمارے سر منڈھی جا رہی ہے!
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پیمانے غلط ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ پیمانے مشرقی فن کو نہیں ماپ سکتے۔ ناقدینِ غرب کا کمال یہ نہیں کہ انھوں نے یہ معیارات وضع کر ڈالے بلکہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ضرورت کے لحاظ سے انھیں بالکل صحیح طور پر وضع کیا۔ مگر ہماری ضروریات ایسی نہیں ہیں۔ ہمارے مسائل ایسے نہیں ہیں۔ ہمارا ادب ایسا نہیں ہے کہ ان پیمانوں پر ماپا جا سکے۔
دور کیوں جائیے؟ اردو اور فارسی شاعری میں ردیف مروج ہے جو زیادہ تر ادبیاتِ عالم میں شاذ ہے۔ ہم اس کا لطف لیتے ہیں۔ کوئی غزل ردیف کے بغیر ہو تو ویسا لطف نہیں دیتی۔ بلکہ ردیف اگر طویل ہو اور نبھا دی گئی ہو تو ایسی شاعری ہمیں وجد میں لے آتی ہے۔ ہمارے ہاں علمِ قافیہ اس کے حسن و قبح سے بحث کرتا ہے۔ مگر مغربی تنقید اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کمبخت کہہ ہی کیا سکتی ہے؟
دیکھا جائے تو ردیف ہماری چوٹی کی شاعری کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سے جو جمالیات وابستہ ہے وہ ہمی جانتے ہیں۔ ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے۔ مگر یہ کیا ہے کہ ہم اتنے دیوانے ہو گئے ہیں کہ ایک ایسے نظامِ محاکمہ، ایسے طرزِ تنقید پر جان دینے لگیں جو ردیف کی اہمیت، اثرات، ہنر وغیرہ سے بحث ہی نہیں کرتا؟ بحث کر ہی نہیں سکتا کہ یہ اس کے مزاج کے ناموافق ہے؟
اگر آپ بیٹھ کر تھوڑی دیر تدبر فرمائیں تو یہ نکتہ آپ کو ایسا لایعنی معلوم نہیں ہو گا جیسا یہ بادی النظر میں لگتا ہے۔ ورنہ آگے آئیے۔ غزل کو دیکھیے۔ داستان کو لیجیے۔ ہماری یہ اصناف ردی تھیں کیا؟ کیا انھوں نے اخلاق کا درس نہیں دیا؟ کیا انھوں نے ہمیں اور ہمارے اسلاف کو مسحور نہیں کیا؟ کیا انھوں نے ہماری جمالیاتی اور روحانی تشفی نہیں کی؟ سب کچھ کیا۔ پھر یہ بتلائیے کہ غزل کو نقدِ مغرب کس نظر سے دیکھتی ہے؟ اسی نظر سے نا جس سے حالیؔ دیکھتا تھا؟ ابھی ہم نے داستان کی داستان نہیں چھیڑی۔ اس بیچاری کو تو مغربی تنقید سرے سے جہالت کا مرقع خیال کرتی ہے اور موجودہ زمانے میں اس کا جواز کالعدم قرار دیتی ہے۔
مغرب کی تنقیدی روایت میں ہئیت نہایت اہم رہی ہے۔ مغرب کا کلاسیک ادب تو ایک طرف رہا، اس کے رومانی شہکار بھی کسی نہ کسی ہئیت کے کسی نہ کسی طور پر اسیر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اکثر صنف کا اعتبار بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ قصائد میں غزل کا بار پانا اس کی ایک بڑی اور موٹی مثال ہے۔
مغربی کلاسیک پاروں میں چند اصول محکمات کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ واقعہ ہوا ہے۔ عروض جیسے مقتدر اور وقیع علم میں زحافات کا پورا شعبہ بلغائے عرب کی بے راہرویوں سے نمو پذیر ہوا ہے جس سے ایسی اور بےراہرویوں کا جواز نکالا جاتا رہا ہے۔ ہمارے کلاسیک ادب کو مغرب کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ چوٹی کا رومانی ادب معلوم ہوتا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے۔ اور ہم ہیں کہ پھر بھی مشرق کے ادب کو مغرب کی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ افسوس!
قصور مغرب کی تنقیدی روایت کا نہیں۔ قصور ہمارے ان گاؤدی اور نیم خواندہ ناقدین کا ہے جو مغربی تنقید کو پڑھتے ہوئے اور پڑھ کر نہ سمجھتے ہوئے ہمارے ادب پر مسلط کر دیتے ہیں۔ ان اندھے مقلدین سے کون الجھے؟ ان کے پاس ڈگریاں ہیں۔ انھوں نے پڑھنے کی سند لے رکھی ہے۔ انھوں نے مغرب سے استناد فرمایا ہے۔ یہ ارسطو سے لے کر ایلیٹ تک اور لانجائنس سے لے کر دریدا تک ان گنت نام گنوا سکتے ہیں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں؟
پھر بھیڑ چال کے ماہرین کی ایک اور جماعت ہے جو مغربی تنقید سے مرعوب تو ہے مگر پورے طور پر مستفید نہیں ہو سکی۔ انھوں نے بھڑاس یوں نکالی ہے کہ ادب کو نصاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایک محدود سا ذخیرۂِ الفاظ ہے جس کو جا و بیجا اظہارِ خیال میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس ذخیرۂِ الفاظ کی مثالیں آپ کو عصرِ حاصر کی گھٹیا سے گھٹیا اور عمدہ سے عمدہ کتب کے مقدموں اور تبصروں میں یکساں طور پر مل جائیں گی۔ "اچھوتا رنگِ سخن، منفرد طرزِ احساس، معاشرتی ناہمواریوں کی تلخی، جدید لب و لہجہ" وغیرہ وغیرہ۔
اس قحط الرجال اور لاطائل تگاپو نے ادب فہمی کے میدان میں ایک بدبودار قسم کی تکرار اور جمود کو جنم دیا ہے۔ تنقید کی مغلق اور کریہہ لفظیات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو مردگئِ افکار اور مقلدانہ کورذوقی کا علاج کون کرے؟ ہمارے ہاں ابھی تک میرؔ کے بہتر نشتروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ ہر ناقد آپ کو اس بات کا مدعی ملے گا کہ وہ غالبؔ کی عظمت کے رازوں کا امین ہے۔ اس ریا اور تصنع کے پردے جنھیں چاک کرنے چاہئیں تھے وہ آپ سب سے بڑھ کر ایسی خودفریبیوں کے قتیل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میرؔ اور میرؔ کی زبان کا زمانہ گزر چکا۔ میرؔ کی جمالیات اور فہمِ شعر کا دور بھی لد گیا۔ معدودے چند افراد کے سوا، جو ادبی محافل اور جرائد وغیرہ میں اپنی دقیانوسیت کے سبب راندگانِ درگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں، آج کوئی شخص بربنائے اخلاص میرؔ کو پسند نہیں کر سکتا۔ ہم میں اور میرؔ میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ ہم نہ اس کی زبان بولتے ہیں، نہ اس کے معاشرے میں رہتے ہیں، نہ اس کی نزاکتوں کو نزاکتیں سمجھتے ہیں، نہ اس کی ثقافت کی باریکیوں کے محرم ہیں اور نہ اس کے طرزِ اظہار سے آشنائی رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیا حماقت ہے کہ میرؔ میرؔ میرؔ ہوتی رہے۔ وہ بڑا شاعر تھا۔ ہے نہیں۔ اب اس کی تعریف کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پیرس کا کوئی باشندہ جس نے کبھی ملتان نہ دیکھا ہو، وہاں گلگشت کی گولی والی بوتل کی مدح میں رطب اللسان ہو جائے۔
مجھے علم ہے کہ میں کتنی سخت باتیں کر رہا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ مجھی پر کوتاہ علمی کا الزام لگنے والا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟ میرؔ کا دیوان اٹھائیے۔ گلی میں جا کر اردو کے کسی عام سے قاری کو میرؔ کا ذکر کیے بغیر کچھ اشعار سنائیے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ میں نے جب میرؔ کا یہ شعر پڑھا تھا
یہی معاملہ غالبؔ کا بھی ہے۔ ان کے ہاں جو نکتہ آفرینی اور نازک خیالی ہے اس سے لطف اندوز ہونے کا مذاق مدتوں پہلے اٹھ چکا ہے۔ ہمیں اب غالبؔ کے قصیدے یاد آئے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ہماری زبان کی موجودہ کیفیت اور ہمارے آج کے ذوق سے جو کلاسیکی شاعر سب سے زیادہ قریب ہے وہ داغؔ ہے۔ اس کا کلام ہمارے لیے زودفہم بھی ہے اور دلچسپ و دلنشین بھی۔ اس کی زبان ہماری جیسی ہے۔ اس کا طرزِ احساس اور اسلوبِ اظہار ہمارے جیسا ہے۔ اس نے اپنے بعد کے تمام اردو شاعروں کو شعوری یا غیرشعوری طور پر راہ دکھلائی ہے۔ اس کے زمانے میں اور ہمارے زمانے میں مغرب کا غلبہ مشترک ہے۔ مگر اس کو تو کوئی تب پوچھے جب میرؔ و غالبؔ سے فرصت ملے۔ اور فرصت کیوں ملے جب مکھی پہ مکھی مارنا دستارِ فضیلت حاصل کرنے کے لیے لازم ہو؟
یہ غالبؔ کا عمرانیاتی مطالعہ، میرؔ کی شاعری کی نفسیات، سوداؔ کی ساختیات وغیرہ جیسی بیہودگیاں کب ختم ہوں گی؟ اردو شاعری کو اس کے ماضی اور مغرب کی تنقید سے ماورا ہو کر کب دیکھا جائے گا؟ اردو ادب پر آج کے معاشرے اور آج کی اقدار کی روشنی میں کب نظرِ التفات ڈالی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سنپولیوں کی طرح میری آستینوں سے لپک لپک کر میرے سینے پر ڈستے رہتے ہیں۔ مگر ان کا جواب میرے پاس نہیں۔ میرے بس میں نہیں!
آج ایک بزعمِ خویش اردو دان شخص کے تنقید کی بابت خیالات نظر سے گزرے تو حالیؔ مرحوم سے لے کر تنویر صاغر تک کئی 'نقاد' یاد آ کے رہ گئے۔ آلِ احمد سرور نے جو دیباچہ محشرِ خیال کا لکھا تھا وہ بھی یاد آیا اور حال ہی میں ایک مقامی شاعر کی کتاب پر ناقدوں کی آرا بھی تصور میں ناچ ناچ گئیں۔ کسی قوم کے ابھرنے سے پہلے ہمیشہ اس کا فن ابھرتا ہے۔ فن کے زوال کے بعد نقد و نظر عروج پاتے ہیں۔ پھر قوم ڈوبتی ہے اور پھر نقد و نظر کی موت واقع ہوتی ہے۔ ہم بحمد اللہ اپنی تاریخ کی اس منزل پہ پہنچ چکے ہیں جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ کوئی کارواں نہیں۔ کوئی سالار نہیں۔ بس ایک دھول اڑ رہی ہے جو راہروؤں کو عبرت دلاتی رہتی ہے کہ
گزرا تھا کبھی میں بھی اسی راہ گزر سے
مگر گرد کو بیٹھتے کتنی دیر لگتی ہے؟ ہائے۔حالیؔ کے معترفین کو یاد ہی نہ رہا کہ حالیؔ کون تھا۔ اس نے مقدمہ کیوں لکھا؟ اس کا مقصود کیا تھا؟
کوئی سنے گا اگر میں کہوں کہ حالیؔ علومِ مشرقیہ کے آفتاب کی وہ آخری کرن تھا جو زوالِ مشرق کے اندھیرے میں بھٹک بھٹک گئی؟ کوئی یاد کرے گا اگر میں یاد دلاؤں کہ حالیؔ اس غالبؔ کا شاگرد تھا جو فرنگیوں کے قصیدے لکھنے پر مجبور ہو گیا تھا اور اس سرسید کا معتقد تھا جس کی آنکھیں انگریزی قمقموں میں چندھیا گئی تھیں؟ کوئی جھٹلائے گا اگر میں دعویٰ کروں کہ حالیؔ کا فکر ایک ہاری ہوئی قوم کو غنیم سے اور زیادہ مرعوب کر گیا؟
میں خودفریب نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ کا مقصود اپنی ذاتِ والا صفات کی بقا تھا اور سرسید کا قوم کی بقا۔ حالیؔ کی نیت پہ بھی مجھے رتی بھر شبہ نہیں۔ انھیں ملت کی فلاح اسی میں معلوم ہوئی جو کسی قدر تھی بھی۔ گویا اقتضائے وقت کے لحاظ سے ان بزرگوں کو معذور قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر بعد میں آنے والے اکثر ناقدین کی عقل پر گریہ کرنے سے مجھے کون روکے؟ یہ وہ دیسی مشاطائیں تھیں جنھوں نے حمام ہائےمغرب سے اکتسابِ ہنر کیا تھا۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ گیسوئے اردو کی بے بی کٹ پر کائنات کا ضمیر انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
مغربی تنقید کی یہ روایت ایسی چلی، ایسی چلی کہ مشرقی جمالیات اور طرزِ احساس کی بنیادیں ہل گئیں۔ ہماری شاعری کا مہتم بالشان محل دھڑام سے نیچے آ رہا اور مشینی ذہنوں کے غوغے میں اس قیامت کا شور بھی گھٹ کر رہ گیا۔
صاحبو، مشرق اور مغرب کا فرق جانتے ہیں آپ؟ ایک یہودی ربی نے یہ گرہ بڑی سادگی سے کھول کے رکھ دی ہے۔ کہتا ہے کہ علم کی بنیاد شک پر نہیں بلکہ حیرت پر ہے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب کے علم کی بنیاد شک پر ہے اور مشرق کا علم حیرت سے کسبِ فیض کرتا ہے۔ مغرب کا فن عقلی ہے اور مشرق کا وجدانی۔ مغرب کا معیار منطق ہے اور مشرق کا جذبہ۔
برا ہو مرورِ زمانہ کا کہ ہماری روایات ہم سے چھن گئیں۔ ہماری اقدار پامال ہو گئیں۔ ہمارے مقلد ہمارے مجتہدوں سے جیت گئے۔ ہمارے احمق ہمارے صاحبانِ فہم و ذکا پر غالب آ گئے۔ ہم بھول گئے کہ ہم مشرقی ہیں۔ ہم نے مغرب کے آلاتِ تنقید سے اپنے ادب کی ایسی جراحی فرمائی کہ مثلہ کرنے والے بھی شرما جائیں۔
غیرت کا لفظ سنا ہو گا آپ نے۔ مللِ اسلامیہ میں کون کافر ہے جو اس لفظ کا مطلب نہ جانتا ہو؟ اس سے متعلق جذبے سے آشنا نہ ہو؟ کیا وجہ ہے کہ انگریزی میں اس لفظ کا ترجمہ موجود نہیں۔ کبھی غور فرمایا آپ نے اس قسم کی باتوں پر؟
یہ حقیقت جھٹلانی مشکل ہے کہ زبان اور ادب معاشرے اور ثقافت کے زیر بار ہوتے ہیں۔ معاشرے میں جو روایات، اقدار اور رسوم پائی جاتی ہیں وہ لغت کی بھی تشکیل کرتی ہیں اور ادب میں بھی معنویت پیدا کرتی ہیں۔ انگریزی میں، اور غالباً تمام یورپی زبانوں میں، غیرت کا مقابل لفظ اس لیے موجود نہیں کہ وہاں یہ مخصوص طرزِ احساس مفقود ہے۔ طرزِ احساس ہی نہ ہو گا تو اس کا اظہار کہاں ہو گا؟
یہ ایک مثال نہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں نظائر اس قسم کے مل جائیں گے۔ قوم جس طرزِ معاشرت پر قائم ہوتی ہے اور جن اقدار کو استوار کرتی ہے وہی اس کی زبان پیدا کرتی ہیں اور وہی اس کے ادب کو جنم دیتی ہیں۔ انھی سے اس کے جذبات کی نیرنگیاں متشکل ہوتی ہیں اور انھی سے اس کی فکر کے زاویے متعین ہوتے ہیں۔
میں جب یہ دیکھتا ہوں تو ہمارے ہاں مغربی طرزِ تنقید کے استیلا کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے اسالیبِ ادب جدا، رنگِ احساس جدا، موضوعات جدا، طرزِ فکر جدا، ہئیتِ ابلاغ جدا، زبان جدا، ثقافت جدا، معاشرت جدا، جغرافیہ جدا، ترجیحات جدا، تاریخِ ادب جدا، ادب پرور جدا، قاری جدا۔ کیا قہر ہے کہ ہئیت پسندی، ساختیات، حقیقت پسندی، پس ساختیات، جدیدیت وغیرہ جیسی الا بلا ہمارے سر منڈھی جا رہی ہے!
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پیمانے غلط ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ پیمانے مشرقی فن کو نہیں ماپ سکتے۔ ناقدینِ غرب کا کمال یہ نہیں کہ انھوں نے یہ معیارات وضع کر ڈالے بلکہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ضرورت کے لحاظ سے انھیں بالکل صحیح طور پر وضع کیا۔ مگر ہماری ضروریات ایسی نہیں ہیں۔ ہمارے مسائل ایسے نہیں ہیں۔ ہمارا ادب ایسا نہیں ہے کہ ان پیمانوں پر ماپا جا سکے۔
دور کیوں جائیے؟ اردو اور فارسی شاعری میں ردیف مروج ہے جو زیادہ تر ادبیاتِ عالم میں شاذ ہے۔ ہم اس کا لطف لیتے ہیں۔ کوئی غزل ردیف کے بغیر ہو تو ویسا لطف نہیں دیتی۔ بلکہ ردیف اگر طویل ہو اور نبھا دی گئی ہو تو ایسی شاعری ہمیں وجد میں لے آتی ہے۔ ہمارے ہاں علمِ قافیہ اس کے حسن و قبح سے بحث کرتا ہے۔ مگر مغربی تنقید اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کمبخت کہہ ہی کیا سکتی ہے؟
دیکھا جائے تو ردیف ہماری چوٹی کی شاعری کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سے جو جمالیات وابستہ ہے وہ ہمی جانتے ہیں۔ ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے۔ مگر یہ کیا ہے کہ ہم اتنے دیوانے ہو گئے ہیں کہ ایک ایسے نظامِ محاکمہ، ایسے طرزِ تنقید پر جان دینے لگیں جو ردیف کی اہمیت، اثرات، ہنر وغیرہ سے بحث ہی نہیں کرتا؟ بحث کر ہی نہیں سکتا کہ یہ اس کے مزاج کے ناموافق ہے؟
اگر آپ بیٹھ کر تھوڑی دیر تدبر فرمائیں تو یہ نکتہ آپ کو ایسا لایعنی معلوم نہیں ہو گا جیسا یہ بادی النظر میں لگتا ہے۔ ورنہ آگے آئیے۔ غزل کو دیکھیے۔ داستان کو لیجیے۔ ہماری یہ اصناف ردی تھیں کیا؟ کیا انھوں نے اخلاق کا درس نہیں دیا؟ کیا انھوں نے ہمیں اور ہمارے اسلاف کو مسحور نہیں کیا؟ کیا انھوں نے ہماری جمالیاتی اور روحانی تشفی نہیں کی؟ سب کچھ کیا۔ پھر یہ بتلائیے کہ غزل کو نقدِ مغرب کس نظر سے دیکھتی ہے؟ اسی نظر سے نا جس سے حالیؔ دیکھتا تھا؟ ابھی ہم نے داستان کی داستان نہیں چھیڑی۔ اس بیچاری کو تو مغربی تنقید سرے سے جہالت کا مرقع خیال کرتی ہے اور موجودہ زمانے میں اس کا جواز کالعدم قرار دیتی ہے۔
مغرب کی تنقیدی روایت میں ہئیت نہایت اہم رہی ہے۔ مغرب کا کلاسیک ادب تو ایک طرف رہا، اس کے رومانی شہکار بھی کسی نہ کسی ہئیت کے کسی نہ کسی طور پر اسیر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اکثر صنف کا اعتبار بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ قصائد میں غزل کا بار پانا اس کی ایک بڑی اور موٹی مثال ہے۔
مغربی کلاسیک پاروں میں چند اصول محکمات کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ واقعہ ہوا ہے۔ عروض جیسے مقتدر اور وقیع علم میں زحافات کا پورا شعبہ بلغائے عرب کی بے راہرویوں سے نمو پذیر ہوا ہے جس سے ایسی اور بےراہرویوں کا جواز نکالا جاتا رہا ہے۔ ہمارے کلاسیک ادب کو مغرب کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ چوٹی کا رومانی ادب معلوم ہوتا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے۔ اور ہم ہیں کہ پھر بھی مشرق کے ادب کو مغرب کی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ افسوس!
قصور مغرب کی تنقیدی روایت کا نہیں۔ قصور ہمارے ان گاؤدی اور نیم خواندہ ناقدین کا ہے جو مغربی تنقید کو پڑھتے ہوئے اور پڑھ کر نہ سمجھتے ہوئے ہمارے ادب پر مسلط کر دیتے ہیں۔ ان اندھے مقلدین سے کون الجھے؟ ان کے پاس ڈگریاں ہیں۔ انھوں نے پڑھنے کی سند لے رکھی ہے۔ انھوں نے مغرب سے استناد فرمایا ہے۔ یہ ارسطو سے لے کر ایلیٹ تک اور لانجائنس سے لے کر دریدا تک ان گنت نام گنوا سکتے ہیں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں؟
پھر بھیڑ چال کے ماہرین کی ایک اور جماعت ہے جو مغربی تنقید سے مرعوب تو ہے مگر پورے طور پر مستفید نہیں ہو سکی۔ انھوں نے بھڑاس یوں نکالی ہے کہ ادب کو نصاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایک محدود سا ذخیرۂِ الفاظ ہے جس کو جا و بیجا اظہارِ خیال میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس ذخیرۂِ الفاظ کی مثالیں آپ کو عصرِ حاصر کی گھٹیا سے گھٹیا اور عمدہ سے عمدہ کتب کے مقدموں اور تبصروں میں یکساں طور پر مل جائیں گی۔ "اچھوتا رنگِ سخن، منفرد طرزِ احساس، معاشرتی ناہمواریوں کی تلخی، جدید لب و لہجہ" وغیرہ وغیرہ۔
اس قحط الرجال اور لاطائل تگاپو نے ادب فہمی کے میدان میں ایک بدبودار قسم کی تکرار اور جمود کو جنم دیا ہے۔ تنقید کی مغلق اور کریہہ لفظیات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو مردگئِ افکار اور مقلدانہ کورذوقی کا علاج کون کرے؟ ہمارے ہاں ابھی تک میرؔ کے بہتر نشتروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ ہر ناقد آپ کو اس بات کا مدعی ملے گا کہ وہ غالبؔ کی عظمت کے رازوں کا امین ہے۔ اس ریا اور تصنع کے پردے جنھیں چاک کرنے چاہئیں تھے وہ آپ سب سے بڑھ کر ایسی خودفریبیوں کے قتیل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میرؔ اور میرؔ کی زبان کا زمانہ گزر چکا۔ میرؔ کی جمالیات اور فہمِ شعر کا دور بھی لد گیا۔ معدودے چند افراد کے سوا، جو ادبی محافل اور جرائد وغیرہ میں اپنی دقیانوسیت کے سبب راندگانِ درگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں، آج کوئی شخص بربنائے اخلاص میرؔ کو پسند نہیں کر سکتا۔ ہم میں اور میرؔ میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ ہم نہ اس کی زبان بولتے ہیں، نہ اس کے معاشرے میں رہتے ہیں، نہ اس کی نزاکتوں کو نزاکتیں سمجھتے ہیں، نہ اس کی ثقافت کی باریکیوں کے محرم ہیں اور نہ اس کے طرزِ اظہار سے آشنائی رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیا حماقت ہے کہ میرؔ میرؔ میرؔ ہوتی رہے۔ وہ بڑا شاعر تھا۔ ہے نہیں۔ اب اس کی تعریف کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پیرس کا کوئی باشندہ جس نے کبھی ملتان نہ دیکھا ہو، وہاں گلگشت کی گولی والی بوتل کی مدح میں رطب اللسان ہو جائے۔
مجھے علم ہے کہ میں کتنی سخت باتیں کر رہا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ مجھی پر کوتاہ علمی کا الزام لگنے والا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟ میرؔ کا دیوان اٹھائیے۔ گلی میں جا کر اردو کے کسی عام سے قاری کو میرؔ کا ذکر کیے بغیر کچھ اشعار سنائیے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ میں نے جب میرؔ کا یہ شعر پڑھا تھا
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا؟
تو میں قہقہے مار کے ہنسا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ بھی منجملہ بہتر نشتروں کے شمار ہوتا ہے۔ اس کی المناکی کی تاثیر پر حجتیں موصول ہوئیں تو خود پر ادبیت طاری کرنے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ ادراک ہوا کہ یہ سعی لاحاصل ہے۔ کس کس پر ادبیت طاری کرواؤ گے؟ کس کس کو زمانے کا پہیہ الٹا گھما کے میرؔ کے زمانے میں دھکیلو گے؟ حذر بکنید۔تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا؟
یہی معاملہ غالبؔ کا بھی ہے۔ ان کے ہاں جو نکتہ آفرینی اور نازک خیالی ہے اس سے لطف اندوز ہونے کا مذاق مدتوں پہلے اٹھ چکا ہے۔ ہمیں اب غالبؔ کے قصیدے یاد آئے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ہماری زبان کی موجودہ کیفیت اور ہمارے آج کے ذوق سے جو کلاسیکی شاعر سب سے زیادہ قریب ہے وہ داغؔ ہے۔ اس کا کلام ہمارے لیے زودفہم بھی ہے اور دلچسپ و دلنشین بھی۔ اس کی زبان ہماری جیسی ہے۔ اس کا طرزِ احساس اور اسلوبِ اظہار ہمارے جیسا ہے۔ اس نے اپنے بعد کے تمام اردو شاعروں کو شعوری یا غیرشعوری طور پر راہ دکھلائی ہے۔ اس کے زمانے میں اور ہمارے زمانے میں مغرب کا غلبہ مشترک ہے۔ مگر اس کو تو کوئی تب پوچھے جب میرؔ و غالبؔ سے فرصت ملے۔ اور فرصت کیوں ملے جب مکھی پہ مکھی مارنا دستارِ فضیلت حاصل کرنے کے لیے لازم ہو؟
یہ غالبؔ کا عمرانیاتی مطالعہ، میرؔ کی شاعری کی نفسیات، سوداؔ کی ساختیات وغیرہ جیسی بیہودگیاں کب ختم ہوں گی؟ اردو شاعری کو اس کے ماضی اور مغرب کی تنقید سے ماورا ہو کر کب دیکھا جائے گا؟ اردو ادب پر آج کے معاشرے اور آج کی اقدار کی روشنی میں کب نظرِ التفات ڈالی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سنپولیوں کی طرح میری آستینوں سے لپک لپک کر میرے سینے پر ڈستے رہتے ہیں۔ مگر ان کا جواب میرے پاس نہیں۔ میرے بس میں نہیں!
آخری تدوین: