فرحت کیانی
لائبریرین
نقشہ کھینچنا یا بگاڑنا(مشفق خواجہ) سے اقتباس
علامہ نیاز فتح پوری اپنی وضع کے منفرد ادیب تھے۔۔۔۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے "لکھنؤ اور لکھنؤیات" کے نام سے جو کتاب شائع کی ہے، وہ نیاز صاحب کی شوخیٔ طبع کا شاہکار ہے۔۔۔۔ ذاتی پسند و ناپسند کے سلسلے میں نیاز صاحب نے جو معیار بنائے ہیں وہ خاصے دلچسپ ہیں۔
فرماتے ہیں: " اول اول جب میں نے کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا تو ان کے کلام کی رفعت اور جذبات کی بلندی کو سامنے رکھ کر جو صورتحال ان کی میں نے قائم کی تھی، یہ تھی۔ ایک نحیف الجثہ انسان (دماغی ترقی اور صحتِ جسمانی کا اجتماع کبھی میرے ذہن میں نہیں آتا۔)، بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں، داڑھی اگر ہوئی تو بالکل "مسترسل الشعر" قسم کی ورنہ چار ابرو کا صفایا۔ ہنستے کم ہوں گے لیکن باریک جلد کے نیچے ایک خاص قسم کا نورانی خندہ ہر وقت جھلکتا ہو گا۔ معاشرت نہایت سادہ مگر پاکیزہ ہو گی۔ یہ لحاظِ اخلاق یکسر عجز و فروتنی ہوں گے۔ بات بات پر آنکھیں اشک آلود ہو جاتی ہوں گی اور بہ حیثیتِ مجموعی ان میں ایک ایسی کشش ہو گی کہ انسان خود بخود ان کی طرف کھنچ جاتا ہو گا۔ لباس بالکل مشرقی وضع کا ہو گا اور نمائش سے دور۔ لیکن جب میں ان سے ملا تو مجھے کسی قدر تکلیف ہوئی کہ وہاں ایک بات بھی میرے مزعومات کے مطابق نہیں تھی۔ میں کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ شلوار پہنتے ہوں گے اور اونچا کوٹ۔ ہر چند یہ ضروری نہیں کہ معمولی گفتگو بھی ایک شاعر کی شاعرانہ دلکشی رکھتی ہو، لیکن اس کا تو وہم بھی نہ گزرا تھا کہ وہ قیام کو کیام اور قہقہہ کو کہکہہ بولتے ہوں گے۔ وہ مجھ سے گفتگو کر رہے تھے اور میں حیران تھا کہ خدایا یہ اقبال دفعتا اکبال کیسے بن گیا۔ آنکھیں چھوٹی اور بہت چھوٹی، جسم پہلوانی کے لگ بھگ فربہ تربیت یافتہ (حقہ) (حکہ) کے غیر لطیف و کثیف استعمال کی کثرت سے کمرے کی ساری فضا بدبو سے لبریز، چہرے کی ساخت، نقشے کی قطع و برید یکسر غیر دلچسپ اور عواید میں کوئی دلکشی نہیں۔"
ہمیں افسوس ہے کہ علامہ اقبال جن کے دل میں پوری قوم کے لیے ہمدردی کا جذبہ موجزن رہتا تھا، نیاز فتح پوری کو ذہنی تکلیف پہنچانے کا سبب بنے۔ گمان غالب ہے کہ وہ بغیر پیشگی اطلاع کے علامہ کے ہاں چلے گئے ہوں گے۔ اگر علامہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہوتی تو وہ ضرور فاقہ کشی کر کے اپنا وزن کم کر لیتے۔ آپریشن کے ذریعے آنکھوں کا سائز اور چہرے کی ساخت تبدیل کرا لیتے، حقے کے بجائے پان کے استعمال سے اپنا شین قاف درست کر لیتے۔ شلوار اور کوٹ کی جگہ انگرکھا اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کر کے اپنے قد و قامت کو شاعرانہ وضع قطع میں ڈھال لیتے۔
از مشفق خواجہ
علامہ نیاز فتح پوری اپنی وضع کے منفرد ادیب تھے۔۔۔۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے "لکھنؤ اور لکھنؤیات" کے نام سے جو کتاب شائع کی ہے، وہ نیاز صاحب کی شوخیٔ طبع کا شاہکار ہے۔۔۔۔ ذاتی پسند و ناپسند کے سلسلے میں نیاز صاحب نے جو معیار بنائے ہیں وہ خاصے دلچسپ ہیں۔
فرماتے ہیں: " اول اول جب میں نے کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا تو ان کے کلام کی رفعت اور جذبات کی بلندی کو سامنے رکھ کر جو صورتحال ان کی میں نے قائم کی تھی، یہ تھی۔ ایک نحیف الجثہ انسان (دماغی ترقی اور صحتِ جسمانی کا اجتماع کبھی میرے ذہن میں نہیں آتا۔)، بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں، داڑھی اگر ہوئی تو بالکل "مسترسل الشعر" قسم کی ورنہ چار ابرو کا صفایا۔ ہنستے کم ہوں گے لیکن باریک جلد کے نیچے ایک خاص قسم کا نورانی خندہ ہر وقت جھلکتا ہو گا۔ معاشرت نہایت سادہ مگر پاکیزہ ہو گی۔ یہ لحاظِ اخلاق یکسر عجز و فروتنی ہوں گے۔ بات بات پر آنکھیں اشک آلود ہو جاتی ہوں گی اور بہ حیثیتِ مجموعی ان میں ایک ایسی کشش ہو گی کہ انسان خود بخود ان کی طرف کھنچ جاتا ہو گا۔ لباس بالکل مشرقی وضع کا ہو گا اور نمائش سے دور۔ لیکن جب میں ان سے ملا تو مجھے کسی قدر تکلیف ہوئی کہ وہاں ایک بات بھی میرے مزعومات کے مطابق نہیں تھی۔ میں کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ شلوار پہنتے ہوں گے اور اونچا کوٹ۔ ہر چند یہ ضروری نہیں کہ معمولی گفتگو بھی ایک شاعر کی شاعرانہ دلکشی رکھتی ہو، لیکن اس کا تو وہم بھی نہ گزرا تھا کہ وہ قیام کو کیام اور قہقہہ کو کہکہہ بولتے ہوں گے۔ وہ مجھ سے گفتگو کر رہے تھے اور میں حیران تھا کہ خدایا یہ اقبال دفعتا اکبال کیسے بن گیا۔ آنکھیں چھوٹی اور بہت چھوٹی، جسم پہلوانی کے لگ بھگ فربہ تربیت یافتہ (حقہ) (حکہ) کے غیر لطیف و کثیف استعمال کی کثرت سے کمرے کی ساری فضا بدبو سے لبریز، چہرے کی ساخت، نقشے کی قطع و برید یکسر غیر دلچسپ اور عواید میں کوئی دلکشی نہیں۔"
ہمیں افسوس ہے کہ علامہ اقبال جن کے دل میں پوری قوم کے لیے ہمدردی کا جذبہ موجزن رہتا تھا، نیاز فتح پوری کو ذہنی تکلیف پہنچانے کا سبب بنے۔ گمان غالب ہے کہ وہ بغیر پیشگی اطلاع کے علامہ کے ہاں چلے گئے ہوں گے۔ اگر علامہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہوتی تو وہ ضرور فاقہ کشی کر کے اپنا وزن کم کر لیتے۔ آپریشن کے ذریعے آنکھوں کا سائز اور چہرے کی ساخت تبدیل کرا لیتے، حقے کے بجائے پان کے استعمال سے اپنا شین قاف درست کر لیتے۔ شلوار اور کوٹ کی جگہ انگرکھا اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کر کے اپنے قد و قامت کو شاعرانہ وضع قطع میں ڈھال لیتے۔
از مشفق خواجہ