فرحان محمد خان
محفلین
نقش تو بنائے ہیں کچھ غزل کی صورت میں
یہ کتابِ فردا ہے دیکھیے گا فرصت میں
خیر و شر کی خبروں کو مانتے تو سب ہی ہیں
کس کو ہوش رہتا ہے جبر اور ضرورت میں
دونوں درد دیتی ہیں آہِ سرد دیتی ہیں
فرق کچھ نہیں ایسا نفرت و محبت میں
ہوتی ہے صداقت میں خامشی کی گہرائی
صرف شور ہوتا ہے حرفِ بے صداقت میں
دیکھ کر تجھے میں نے اور کچھ نہیں دیکھا
پھر بھی رنگ ہیں کتنے میری چشمِ حیرت میں
آسماں کے تاروں میں آگ یہ کہاں ہو گی
آدمی سلگتا ہے آدمی کی حسرت میں
روشنی چراغوں سے دور ہوتی جاتی ہے
جتنا آگے بڑھتے ہیں شب کو دشتِ وحشت میں
طاق بے دیاروں کے بےچراغ ہیں کب سے
اک دیا جلا دینا شب کو شہرِ غربت میں
یہ کتابِ فردا ہے دیکھیے گا فرصت میں
خیر و شر کی خبروں کو مانتے تو سب ہی ہیں
کس کو ہوش رہتا ہے جبر اور ضرورت میں
دونوں درد دیتی ہیں آہِ سرد دیتی ہیں
فرق کچھ نہیں ایسا نفرت و محبت میں
ہوتی ہے صداقت میں خامشی کی گہرائی
صرف شور ہوتا ہے حرفِ بے صداقت میں
دیکھ کر تجھے میں نے اور کچھ نہیں دیکھا
پھر بھی رنگ ہیں کتنے میری چشمِ حیرت میں
آسماں کے تاروں میں آگ یہ کہاں ہو گی
آدمی سلگتا ہے آدمی کی حسرت میں
روشنی چراغوں سے دور ہوتی جاتی ہے
جتنا آگے بڑھتے ہیں شب کو دشتِ وحشت میں
طاق بے دیاروں کے بےچراغ ہیں کب سے
اک دیا جلا دینا شب کو شہرِ غربت میں
سلیم احمد