نماز، استغفار اور زاویہء نگاہ

محمداحمد

لائبریرین
نماز، استغفار اور زاویہء نگاہ

ہم سب ،اشیاء کو دیکھتے ہیں۔ لیکن ہر شخص کا دیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔ دیکھنے کا یہ انداز دراصل زاویہءنگاہ ہوا کرتا ہے ۔ ہم کسی بات کو جس نظر سے، جس پہلو سے یا جس زاویے سے دیکھ رہے ہیں، ہمیں وہ بات اُسی طرح نظر آتی ہے۔ ہم اچانک آ جانے والی برسات کو دیکھ کر خوش بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ کی رحمت نازل ہو گئی ہے اور اب گرمی کچھ کم ہو جائے گی یا ہم اسی بارش کو دیکھ کر پریشان بھی ہو سکتے ہیں کہ اتنی شدید بارش شروع ہو گئی، اور میں گھر سے دور ہوں ۔ گھر کیسے پہنچوں گا یا فلاں فلاں کام آج نہیں ہو سکے گا۔ یعنی زاویہء نگاہ سے بات کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔

ہم ہر فرض نماز کے بعد ایک بار اللہ اکبر اور تین بار استغفراللہ پڑھا کرتے ہیں (جیسا کہ صحیح مسلم حدیث نمبر 583 اور591 میں ذکر ہے) ۔ پہلے بھی پڑھا کرتے تھے اور اب بھی پڑھتے ہیں لیکن اب کے اور پہلے کے پڑھنے میں فرق ہے۔

یہ فرق کیسے آیا؟ ایک بار ہمارے قرانی عربی کے اُستادِ محترم عبدالعزیز عبد الرحیم صاحب نے بتایا کہ ہم ہر فرض نماز کےبعد استغفار پڑھتے ہیں، اب اس استغفار کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی تو ہم نے نماز پڑھی ہے۔اور ہم استغفار پڑھنے لگ گئے۔ ایسا کیوں؟

انہوں نے بتایا کہ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہم نماز میں حاضر کم ہوتے ہیں اور غائب زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم نماز میں ہوتے ہیں۔ ارکان ادا ہو رہے ہوتے ہیں۔ زبان الفاظ دُہرا رہی ہوتی ہے، لیکن ذہن کہیں اور ہوتا ہے، ہم کیا کہہ رہے ہوتے ہیں، ہمیں نہیں پتہ ہوتا۔ ہم مائنڈ فل ہو کر نماز نہیں پڑھتے۔ ہم نماز میں حاضر تو ہوتے ہیں لیکن حضورِ قلبی بہت ہی کم نصیب ہوتی ہے۔ پھر اگر کوشش کرکے نماز کو کچھ بہتر کر بھی لیں تب بھی کافی کمی رہ جاتی ہے اور نماز کا حق بہت کم ہی ادا ہوتا ہے۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے:"انسان نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے اس کی نماز سے صرف دسواں ، نواں ، آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، اور آدھا حصہ ہی لکھا جاتا ہے ۔" سنن ابو داؤد۔ حدیث نمبر796

یعنی اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے مطابق ہر انسان کو اُس کی نماز کا مختلف اجر ملتا ہے اور یہ اُس کی نماز کے معیار کے مطابق ہوتاہے۔

اُستادِ محترم نے بتایا کہ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہماری نماز میں وہ بات نہیں ہے، جو ہونی چاہیے تھی، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ تب ہم نماز ختم کرنے کے بعد تین بار استغفراللہ ، استغفراللہ ، استغفراللہ پڑھتے ہیں اور اپنی ناقص نماز کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ سے معافی طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ ہماری ٹوٹی پھوٹی نماز کو قبول فرما لے۔

پہلے جب ہم نماز سے فارغ ہو کر استغفار پڑھتے تھے تب کی بات اور تھی، تب بس یہ زبان سے ادائیگی تھی۔ لیکن جب سے استادِ محترم کی یہ بات سنی ہے اس استغفار میں بھی ایک تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ بس یہی فرق ہے، زاویہء نگاہ کا۔

*****
 

جاسمن

لائبریرین
واقعی آپ نے درست کہا۔ اچھا موضوع چُنا ہے۔ مثال بھی اچھی دی ہے۔ مختصر اور پُراثر۔
 
Top