نمکین غزلوں کے موسم میں ایک میٹھی سی غزل،'' آزمانے آئے گا، وہ دل جلانے آئے گا''

آزمانے آئے گا وہ، دل جلانے آئے گا
کچھ سُنے شائد ہی میری، بس سنانے آئے گا
کہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور مکر اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
اپنی الفت کے بھلا کر ہی فسانے آئے گا
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ مجھے امید ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے بہانے سے نئے اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا
 
خوبصورت غزل ہے محمد اظہر نذیر بھائی۔داد قبول کیجیے۔
استادمحترم کی آمد سے پہلے ہم چپکے سے اپنی تجاویز آپ کے گوش گزار کردیں۔

آزمانے آئے گا ، بس دل جلانے آئے گا
ان سُنی کرتا ہوا میری ، سنانے آئے گا
کہہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور اپنا مکر ہے سونا، جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
وہ بھلا کر اپنی الفت کےفسانے آئے گا
 
خوبصورت غزل ہے محمد اظہر نذیر بھائی۔داد قبول کیجیے۔
استادمحترم کی آمد سے پہلے ہم چپکے سے اپنی تجاویز آپ کے گوش گزار کردیں۔

آزمانے آئے گا ، بس دل جلانے آئے گا
ان سُنی کرتا ہوا میری ، سنانے آئے گا
کہہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور اپنا مکر ہے سونا، جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
وہ بھلا کر اپنی الفت کےفسانے آئے گا
جی انشا اللہ تجاویز مد نظر ہوں گی
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ خلیل، میرا کام آسان ہی نہیں، مکمل کر دیا۔ میں بھی صرف یہی کرتا ہوں کہ اشعار کو یا تو بحر میں لا دیتا ہوں یا بحر میں ہوں تو رواں بنا دیتا ہوں۔ البتہ اتنا ضرور بتاؤں گا کہ عزیزم اظہر نے ’مکر‘ کا تلفظ غلط نظم کیا تھا، خلیل نے درست کر دیا، لیکن اس کی نشان دہی مجھ پر چھوڑ دی!!
البتہ میں مطلع میں یہ اصلاح پسند کرتا۔ دوسرے مصرع میں اظہر کی بے ساختگی زیادہ بہتر ہے۔
پھر ستانے آئے گا یا دل جلانے آئے گا
میری شائد ہی سنے کچھ،بس سنانے آئے گا
مصرع اولیٰ کچھ اور بھی ممکن ہے۔ مزید مشوروں کے لئے راستہ کھلا ہے۔ دوسرا مصرع مجھے اس طرح زیادہ پسند آ رہا ہے۔​
 
آزمانے آئے گا بس دل جلانے آئے گا
میری شائد ہی سنے کچھ،بس سنانے آئے گا
کہہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور چھل اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
وہ بھلا کر اپنی الفت کےفسانے آئے گا
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ مجھے امید ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے بہانے سے نئے اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں دونوں مصرعوں میں ’بس‘ کا استعمال بہتر نہیں۔میرے مشورے میں کچھ قباحت محسوس ہو رہی ہو تو بتاؤ،
ان دو اشعار کو خلیل نے چھوڑ دیا تھا۔
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ مجھے امید ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے بہانے سے نئے اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا
مجھے اس طرح کچھ بہتر لگ رہے ہیں۔
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ ÷یہ تو مجھ کو آس ہو!
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے نئے حیلے سے وہ اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا
 
آزمانے آئے گا بس دل جلانے آئے گا
میری شائد ہی سنے کچھ،بس سنانے آئے گا
کہہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور چھل اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
وہ بھلا کر اپنی الفت کےفسانے آئے گا
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ تو مجھ کو آس ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے نئے حیلے سے وہ اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی اصلاح قبول نہ کرنے کی وجہ؟
اور یہ شعر بھی پسند نہیں آ رہا ہے:
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور چھل اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
 
مطلع کی اصلاح قبول نہ کرنے کی وجہ؟
اور یہ شعر بھی پسند نہیں آ رہا ہے:
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور چھل اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُستاد محترم میں سمجھا کہ آپ جناب خلیل صاحب کی اصلاح قبول کرنے کو بولے، ویسے اس شعر میں دیکھیے تو
پھر ستانے آئے گا یا دل جلانے آئے گا
میری شائد ہی سنے کچھ،بس سنانے آئے گا
ستانے اس سے اگلے شعر میں قافیہ استعمال ہوا ہے، کیا یہ ٹھیک لگے گا؟
دوسرا شعر تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top