محمد اظہر نذیر
محفلین
آزمانے آئے گا وہ، دل جلانے آئے گا
کچھ سُنے شائد ہی میری، بس سنانے آئے گا
کہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور مکر اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کٗئی قصے محبت کے مگر
اپنی الفت کے بھلا کر ہی فسانے آئے گا
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ مجھے امید ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے بہانے سے نئے اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا