محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
اک غولِ بیابان ہے گویا مرے آگے
جوہی مرے پیچھے ہے تو چمپا مرے آگے
میں دل کو بچا پاؤں گا اب، یہ نہیں ممکن
قاتل مرے پیچھے ہے ، مسیحا مرے آگے
میں ڈوبنے جاتا ہوں مگر دیکھیے کیا ہو
لگتا ہے کہ پایاب ہے دریا مرے آگے
وہ آگ کا دریا تھا کہ محشر کی گھڑی تھی
اشکوں کا جو بند اسکا تھا ٹوٹا مرے آگے
ہم خستہ تنوں کی یونہی آباد ہے دنیا
’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘
پہلے تو وہ خنجر سے لگاتا تھا کچوکے
اب روز ہی رکھتا ہے طمنچا مرے آگے
چاہی جو ملاقات اکیلے میں تو اس نے
عشاق کا جدول یونہی رکھا مرے آگے
محمد خلیل الرحمٰن