محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
تھا وہی میری کہانی اور وہی عنواں بھی تھا
ہاں وہی ، کچھ روز میرے دِل کا جو مہماں بھی تھا
دے کے دردِ عشق اُس نے مجھ کو گھائل کردیا
اور وہی چنچل مرے اِس درد کا درماں بھی تھا
ہاں خدا لگتی کہیں گے بزم میں آج آپ بھی!
آپ کےظلم و ستم تھے اور میں نالاں بھی تھا؟
میں تو چپ تھا اور طوفاں غیر اُٹھاتے ہی رہے
گو بڑا طوفاں مرے سینے میں اِک پنہاں بھی تھا
آئے ڈاکو لوٹنے یا ڈھونڈنے کل رات کو
گھر پہ میرے لوٹنے کے واسطے ساماں بھی تھا؟
تو ہی ناداں ایک بیوی پر گزارہ کرگیا
’’ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیء داماں بھی تھا‘‘
کوئی سولی چڑھ گیا، اور ہم شفاعت یافتہ
حضرتِ انساں کبھی شرمندہء احساں بھی تھا؟
’’وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا‘‘
اور ہم مدھوش ہیں، کیا اپنا کچھ ساماں بھی تھا؟