نمکین غزل: غزل اَک سنانے کو جی چاہتاہے:: از:: محمد خلیل الرحمٰن

غزل
محمد خلیل الرحمٰن
غزل اِک سنانے کو جی چاہتا ہے
کبھی گیت گانے کو جی چاہتا ہے
(ق)
بحر یہ پسند آگئی ہم کو جی سے
اِ سے گنگنانے کو جی چاہتاہے
جہاں جاتے جاتے نہ تھکتے تھے ہم کل
وہیں آج جانے کو جی چاہتا ہے
بہت خود سے کہہ سن لیا ہم نے شاعر
اب اُن کو سنانے کو جی چاہتا ہے
کبھی آپ روٹھے ، اُنھوں نے منایا
اب اُن کو منانے کو جی چاہتا ہے
یہاں اولے پڑنے کا امکاں نہیں ہے
یونہی سر منڈانے کو جی چاہتا ہے
کبھی ٹوٹ کر یاد آتے ہو تم بھی
کبھی بھول جانے کو جی چاہتا ہے
‘‘تماشا کر اے محوِ آئینہ داری’’
تجھے اب رِجھانے کو جی چاہتا ہے
اُنھیں کا قصیدہ، اُنھیں کا ترانہ
اُنھیں سے چھپانے کو جی چاہتا ہے
عجب بے کلی سی ہے دِل میں ہمارے
تڑپ کر رُلانے کو جی چاہتا ہے
کبھی پیار سے اور شرارت سے اُن کو
جلانے ، ستانے کو جی چاہتا ہے
بہت دُکھ سہے اور بہت رو لیے ہم
پر اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
خلیل عاشقوں میں ہوئے ہم بھی شامل
بس اب روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ بہت خوب غزل ہے۔ داد قبول فرمائیں۔

(شکر ہے اس میں "مزید" کی فرمائش نہیں کی۔)
 

الف عین

لائبریرین
کئی اشعار مزے کے ہیں، کچھ نمکین نہیں، اچھے خاصے سنجیدہ ہیں۔ اور دو مصرعوں میں عروضی غلطیاں ہیں۔ سارے مبتدی حضرات کے لئے یہ ہوم ورک۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
بحر یہ پسند آگئی ہم کو جی سے
اِ سے گنگنانے کو جی چاہتاہے
بہت خوب جناب ، واقعی کئی اشعار اچھے خاصےسنجیدہ ہیں ،پوری غزل پہ بہت سی
داد حاضرِ خدمت ہے۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے
دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

کسی کے منانے میں لذت وہ پائی
کہ پھر روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے

یہ فلمی قوالی بھی سُننے والی ہے۔
 

متلاشی

محفلین
کئی اشعار مزے کے ہیں، کچھ نمکین نہیں، اچھے خاصے سنجیدہ ہیں۔ اور دو مصرعوں میں عروضی غلطیاں ہیں۔ سارے مبتدی حضرات کے لئے یہ ہوم ورک۔
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ۔۔۔ میں تو اپنی کم علمی اور کج فہمی کے باعث کوئی عروضی غلطی ڈھونڈنے میں ناکام رہا ۔۔۔۔! شاید دو مصرعوں میں اور کی جو واؤ حذف کی گئی ہے وہ قابلِ گرفت ہو ۔۔۔۔! واللہ اعلم !
 

الف عین

لائبریرین
اب تک کوئی عروضی غلطیاں نہیں پکڑ سکا؟؟
تو اب اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔
بحر یہ پسند آگئی ہم کو جی سے​
بحر بر وزن درد، ہے، یعنی ح پر جزم، یہاں متحرک نظم ہوا ہے، بلکہ مفتوح (زبر سے)​
اور​
خلیل عاشقوں میں ہوئے ہم بھی شامل​
اس کی تقطیع کرو۔​
خلیلا، شقو مے، ہوئےہم، بشامل​
نہیں ہوتی؟، پھر عاشقوں کی ’ع‘ کہاں گئی، الف کی طرح وصل کر دیا گیا یا وصال ہی ہو گیا اس کا؟​
 

متلاشی

محفلین
اب تک کوئی عروضی غلطیاں نہیں پکڑ سکا؟؟
تو اب اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔

بحر یہ پسند آگئی ہم کو جی سے


بحر بر وزن درد، ہے، یعنی ح پر جزم، یہاں متحرک نظم ہوا ہے، بلکہ مفتوح (زبر سے)


اور


خلیل عاشقوں میں ہوئے ہم بھی شامل


اس کی تقطیع کرو۔


خلیلا، شقو مے، ہوئےہم، بشامل


نہیں ہوتی؟، پھر عاشقوں کی ’ع‘ کہاں گئی، الف کی طرح وصل کر دیا گیا یا وصال ہی ہو گیا اس کا؟
استاذ گرامی آپ کی ارشاد فرمودہ دونوں جگہوں پر ذرا سا اشکال تھا مگر چونکہ یقین نہ تھا اس لیے کچھ کہنے سے گریز کیا ۔۔۔۔!
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب!مزے کی غزل ہے۔
جہاں دیکھتا ہوں کہ حلوہ پکا ہے
وہیں بیٹھ جانے کو جی چاہتا ہے
 
بہت اعلٰی۔
بہت دُکھ سہے اور بہت رو لیے ہم
پر اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
خود بھی مسکرائیے اور باقی احباب میں بھی اپنی نمکین شاعری سے مسکراہٹیں بانٹیے۔
 
اب تک کوئی عروضی غلطیاں نہیں پکڑ سکا؟؟
تو اب اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔

بحر یہ پسند آگئی ہم کو جی سے​

بحر بر وزن درد، ہے، یعنی ح پر جزم، یہاں متحرک نظم ہوا ہے، بلکہ مفتوح (زبر سے)​

اور​

خلیل عاشقوں میں ہوئے ہم بھی شامل​

اس کی تقطیع کرو۔​

خلیلا، شقو مے، ہوئےہم، بشامل​

نہیں ہوتی؟، پھر عاشقوں کی ’ع‘ کہاں گئی، الف کی طرح وصل کر دیا گیا یا وصال ہی ہو گیا اس کا؟​

یہ سب شاید (جیسے کہ شمشاد صاحب نے توجہ دلائی ہے) خلیل صاحب کے عروض چیک کرنے والے طریقے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس طرز پہ گانے سے تو یہ بالکل موزوں لگتی ہے
 
Top