محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
نمکین غزل
محمد خلیل الرحمٰن
مجھے چاہتا کوئی اور تھا، یہ میاں مرا کوئی اور ہے
میں پسند ہوں کسی اور کی، مجھے لے اُڑا کوئی اور ہے
کسی بد نصیب کو پھانس کر ، غزل ایک ہم بھی سنا گئے
جو نکل لیا کوئی اور تھا، وہ جو پھنس گیا کوئی اور ہے
یہ عجیب لے ، یہ عجیب دھُن ، جو ہمارے بس میں نہیں رہی
مرا ہم نوا کوئی اور تھا، پہ یہ بے سُرا کوئی اور ہے
وہ مٹک مٹک کے چلی جہاں ، کئی ایک راہ میں لُٹ گئے
اُسے تاڑتا کوئی اور تھا، وہ جو پِٹ گیا کوئی اور ہے
جسے لے گئے تھے مشاعرے میں وہ اپنے ساتھ رُکا نہ تھا
پئے واہ وا کوئی اور تھا، وہ جو ہنس دیا کوئی اور ہے
جسے گھیر گھار کے لائے تھے، کسی اور جا وہ نکل لیا
وہ کمال تھا، کوئی اور تھا، یہ غزل سرا کوئی اور ہے
ہے یہی خلیل کی آرزو، یہی اپنی آج بھی جستجو
نہ ترا خدا کوئی اور تھا، نہ مرا خدا کوئی اور ہے