مفلسی کے دور میں اک گھر کا جو کھایا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
"باس کی بیٹی" سے شادی کے لئے مجبور تھا
لے گیا آغوشِ الفت میں مجھے کالا نمک
میرے آنے کی خوشی میں وہ تو پاگل ہو گئی
ڈال دی سالن میں چینی، کھیر میں ڈالا نمک
لنچ کا وعدہ تھا مجھ سے، لے گیا اس کو کزن
اس طرح ظالم نے زخموں پر مرے چھڑکا نمک
سالیوں نے سامنے رکھ دی تھی "مصری" کی پلیٹ
شرم کے مارے وہ دلہا کھا گیا سارا نمک
اس کو دے دے کر صدائیں میرا گلہ دُکھ گیا
اور غراروں کے لئے اس نے فقط پھینکا نمک
ہے فشارِ خون بڑھنے کا سبب بیگم میری
اس لئے بیگم کا میں نے نام ہے رکھا نمک
بیگم اور معشوق میں نمکین سا اک فرق ہے
اک طرف پھانکا نمک ہو، اک طرف چکھا نمک
عاشقوں کو قدر اس کی آ گئی پھینٹی کے بعد
جب ٹکوروں کے لئے زخموں پہ تھا رکھا نمک
 
امجد علی راجا بھائی ایک تو یہ بتائیے کہ یہ غزل ہے یا نظم اگر غزل ہے تو عنوان حذف کرنا ہوگا، دوسرے ، قوافی پر نظر ثانی فرمائیے۔ مطلع میں جو قوافی ڈیفائن کیے ہیں وہ باقی شعروں میں نہیں ہیں۔ یہ ہماری رائے ہے، بہتر طور پر اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں جو بس آیا ہی چاہتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
مزے کی غزل ہے، محمد خلیل الرحمٰن سے متفق ہوں کہ مطلع میں ایطا ہے۔
مفلسی کے دور میں اک گھر کا جو کھایا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
یہاں کھایا اور بھایا قوافی سے یہ لگتا ہے کہ باقی قوافی لایا، چھایا منایا (مشترک ’ایا‘) ہوں گے، جو نہیں ہیں۔ اسی کو عروض کی اصطلاح میں ایطا کہتے ہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی سے یوں کر دیں۔
مفلسی کے دور میں کھایا جو اک گھر کا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
امجد علی راجا اصلاح سخن اصلاح کا ہی زمرہ ہے، مزاحیہ غزلیں کیا ’سخن‘ نہیں ہیں؟
یہ اخباروں میں بھی ’بدعت‘ چل نکلی ہے کہ مزاحیہ غزلوں کے بھی عنوانات دئے جا رہے ہیں، ویسے ہونے نہیں چاہئیں۔ لیکن بطور دھاگے کے عنوان کے اس لئے روا ہے کہ یہاں مراد اس مزاحیہ غزل (اس کی اصطلاح بھی ’ہزل‘ ہے، لیکن عدم استعمال سے آج کل کم لوگ ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں) سے ہے، جس کی ردیف نمک ہے۔ ورنہ تمام دھاگوں کے عنوان میں ’ایک غزل‘ یا اسی قسم کا کچھ ہو تو پہچاننے میں مشکل ہو گی۔ میں تو تجاہل عارفانہ سے کام لے کر گزر جاؤں گا کہ اس غزل کی اصلاح ہو چکی!!!
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
محمد خلیل الرحمن صاحب اور الف عین صاحب کی آراء کے بعد اس طالب علم کی رائے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ بس ایک لفظ کھٹکتا ہے:(ممکن ہے میری کم علمی ہو) پھینٹی، اسے آپ نے کن معنیٰ میں استعمال کیاہے؟
 

الف عین

لائبریرین
فارقلیط رحمانی، میں بھی نہیں جانتا تھا کہ میں بھی آپ کی طرح ہندوستانی ہوں۔ لیکن یہیں محفل سے معلوم ہوا کہ اس کا مطلب مار پٹائی ہے۔خلیل میاں نے اصلاح سخن میں منتقل کر دیا ہے اسے۔
اب اس شعر کو بھی دیکھ لو جو وزن میں نہیں آ رہا ہے
اس کو دے دے کر صدائیں میرا گلہ دُکھ گیا
اور غراروں کے لئے اس نے فقط پھینکا نمک
یہاں گلہ لام پر تشدید کے ساتھ آ رہا ہے وزن میں۔ اس کو یوں کر دو۔
اس کو دے دے کر صدائیں دُکھ گیا میرا گلہ

بیگم اور معشوق میں نمکین سا اک فرق ہے
اک طرف پھانکا نمک ہو، اک طرف چکھا نمک
اس کا دوسرا مصرع کچھ بہتر کیا جا سکتا ہے گرامر کی رو سے۔

مزید یہ کہ آخر میں بھی قوافی ایک ساتھ ’کھا‘ پر ختم ہونے والے آ گئے ہیں۔ ان کے درمیان فاصلہ کر دیں تو بہتر ہو۔
 
امجد علی راجا بھائی ایک تو یہ بتائیے کہ یہ غزل ہے یا نظم اگر غزل ہے تو عنوان حذف کرنا ہوگا، دوسرے ، قوافی پر نظر ثانی فرمائیے۔ مطلع میں جو قوافی ڈیفائن کیے ہیں وہ باقی شعروں میں نہیں ہیں۔ یہ ہماری رائے ہے، بہتر طور پر اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں جو بس آیا ہی چاہتے ہیں۔
شکریہ خلیل بھیا! میں بہت کم علم طالبِ ہوں، مزاحیہ کلام کو غزل کہنا درست ہے یا نہیں اس بات سے بے خبر ہوں اس لئے میں مزاحیہ کلام کو غزل کہنے کی بجائے نظم ہی کہتا ہوں۔ آپ کچھ روشنی ڈال دیں، شکریہ
 
مزے کی غزل ہے، محمد خلیل الرحمٰن سے متفق ہوں کہ مطلع میں ایطا ہے۔
مفلسی کے دور میں اک گھر کا جو کھایا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
یہاں کھایا اور بھایا قوافی سے یہ لگتا ہے کہ باقی قوافی لایا، چھایا منایا (مشترک ’ایا‘) ہوں گے، جو نہیں ہیں۔ اسی کو عروض کی اصطلاح میں ایطا کہتے ہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی سے یوں کر دیں۔
مفلسی کے دور میں کھایا جو اک گھر کا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
امجد علی راجا اصلاح سخن اصلاح کا ہی زمرہ ہے، مزاحیہ غزلیں کیا ’سخن‘ نہیں ہیں؟
یہ اخباروں میں بھی ’بدعت‘ چل نکلی ہے کہ مزاحیہ غزلوں کے بھی عنوانات دئے جا رہے ہیں، ویسے ہونے نہیں چاہئیں۔ لیکن بطور دھاگے کے عنوان کے اس لئے روا ہے کہ یہاں مراد اس مزاحیہ غزل (اس کی اصطلاح بھی ’ہزل‘ ہے، لیکن عدم استعمال سے آج کل کم لوگ ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں) سے ہے، جس کی ردیف نمک ہے۔ ورنہ تمام دھاگوں کے عنوان میں ’ایک غزل‘ یا اسی قسم کا کچھ ہو تو پہچاننے میں مشکل ہو گی۔ میں تو تجاہل عارفانہ سے کام لے کر گزر جاؤں گا کہ اس غزل کی اصلاح ہو چکی!!!

جزاک اللہ، استادِ محترم آپ نے تو بہت سلیقے سے مطلع درست فرما دیا، غلطی بھی دور ہو گئی اور شعر اپنی جگہ قائم ہے :)
عنوان کے حوالے سے آپ نے جو کہا، ہمیشہ یاد رہے گا۔ شکریہ
 
محمد خلیل الرحمن صاحب اور الف عین صاحب کی آراء کے بعد اس طالب علم کی رائے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ بس ایک لفظ کھٹکتا ہے:(ممکن ہے میری کم علمی ہو) پھینٹی، اسے آپ نے کن معنیٰ میں استعمال کیاہے؟

فارقلیط بھیا! آپ کو کبھی پڑی نہیں ہوگی، ہم سے پوچھیں پھینٹی کیا ہوتی ہے، اور کس انتہا کی ہوسکتی ہے :cry2:
بچپن سے پچپن تک کا ساتھ ہے اس کم بخت پھینٹی سے۔
 
اس کو دے دے کر صدائیں میرا گلہ دُکھ گیا
اور غراروں کے لئے اس نے فقط پھینکا نمک

اگر دوسرا مصرعہ بدل دوں تو؟
اس کو دے دے کر صدائیں دُکھ گیا میرا گلہ
خود نہ آیا پر غراروں کے لئے پھینکا نمک
دوسرا مصرعہ کچھ بہترہے یا پہلے والا ہی رہنے دیا جائے؟

بیگم اور معشوق میں نمکین سا اک فرق ہے
اک طرف پھانکا نمک ہو، اک طرف چکھا نمک






دوسرے مصرعے پر بھی آپ ہی مہربانی فرمائیے، مجھے تو بس اتنا ہی فرق محسوس ہوا تھا دونوں میں :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شکریہ ! امجد علی صاحب راجا!
افوہ! ہم بھی بڑے گائودی نکلے! اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے۔ جب کہ گجراتی زبان میں پھینٹ بمعنی مکا بولا بھی جاتا ہے۔اور
بچپن سے پچپن تک تو ہم بھی نہ جانے کتنی​
پھینٹ، منہ کی کھا چکے ہیں۔
 
خوش نصیبی آپ کی، جو "پھینٹ" تک محدود ہیں
"ی" اضافی لگ گئی تو، ہوش سمجھو کھو گئے
ہم سے پوچھو روز ہی کھاتے ہیں ہم شام و سحر
اس لئے تو نیم پاگل، نیم گنجے ہو گئے
 
Top