اچھی تحریر مگر راہنمائی کے لیے مزید وضاحت درکار ہوگی:
نمی جب تک بھی آنکھ میں رہے ضبط تو تصور ہوتا ہے، خواہ آنکھ چمک رہی ہو یا چھلکنے کے لیے بے تاب۔۔۔
اور جب نمی آنسو بن کر بہہ جائے تو گویا ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بقول اطیب جازل:
اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ تیرے ضبط کی حد ہے، حد ہے
اور جب ضبط نہ رہنے کے باعث آنسو بہہ جائیں اور دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے یا تکلیف قدرے کم ہو جائے یا خوشی کا لطف ماند پڑ جائے اور جذبات و احساسات پھر سے قابو میں آ جائیں اور آنکھیں بھی خشک ہو جائیں۔۔۔
منظر تو واضع ہو ہی جاتا ہے۔۔۔
بات بھی سمجھ آنے لگتی ہے یا کم از کم سمجھ تو آ (لگ) ہی جاتی ہے۔۔
حقیقت کا ادراک بھی بخوبی ہو جاتا ہے بالخصوص ان عناصر کی حقیقت تو بخوبی واضع ہو جاتی ہے۔
اور انسان ایک بار پھر حالات سے سمجھوتہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
مختصر یہ پوچھنا تھا کہ جب نمی آئے تو ضبط کا دامن فوری چھوڑ دینا چاہیے؟؟؟