ناصر علی مرزا
معطل
یہ کچھ اور ہی کہانی محسوس ہور ہی ہے شاید کچھ حقیقت اور کچھ افسانہ ملا کر گل نوخیز اختر نے یہ کالم لکھا تھا یا وہ حقائق کو من پسند توجیہ کی طرف لے کر گئے ہیں
عطاٗ الحق قاسمی کا نام بھی لیا جا رہا ہے
صرف واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا
http://daily.urdupoint.com/columns/...9/sirf-wah-wah-se-pait-nahi-bharta-20468.html
ندیم گُلانی :
پھر ایک دن فرحت عباس شاہ صاحب نے اپنے ایک فیس بُک کالم ”کیا شاعر صرف واہ اوہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“میںآ فتاب اقبال صاحب اورجیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“کی ایک درباری لکھاریوں کی طرح تعریفیں لکھنے کے دوران اپنے اِس پروگرام میں کام کرنے اور اپنے چاہنے والوں کے ری ایکشن کے حوالے سے کچھ اِس طرح بیان کِیا
”جیوٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں میری شمولیت پر مجھ سے محبت کرنے والوں نے جس شدت کے ساتھ اپنے غم،غُصے اور دُکھ کا اظہار کِیا، اُس نے مجھے ہِلا کے رکھ دیا۔لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کو پتہ تھا کہ میں اپنی تمام جمع پونجی اور گھر باراسلامک مائیکروفنانس کے فرض ماڈل کے ذریعے4000سے زیادہ غریب خاندانوں کی مدد کرنے پر صَرف کر چُکا ہوں، اور اب میں مختلف جابز کر کے ہی گھر اور فرض فاؤنڈیشن چلاتا ہوں،انہوں نے مجھے کسی کی بات پرکان دھرنے کے بجائے مزدوری جاری رکھنے کا حُکم صادر کر دیا۔“
کچھ عرصہ قبل کچھ دوستوں نے ایک خبر مجھے انتہائی حیرت کے عالم میں سُنائی،خبر یہ تھی کے دُنیائے شعروادب کے ایک بُہت بڑے نام جناب فرحت عباس شاہ صاحب جیو ٹی وی کے آفتاب اقبال صاحب کے پروگرام ”خبرناک“ میں ایک کامیڈی کردار کر رہے ہیں،اور پھر اُس کے بعد وہ پروگرام مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہُوا۔یقین جانیئے فرحت عباس شاہ صاحب کے لاکھوں چاہنے والوں کیطرح مجھے بھی ایک دھچکاسا لگا،دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ ایک اتنا بڑا ادیب اور شاعرایک ایسے پروگرام میں اِس قسم کا معمولی سا کردار کر رہا ہے،اِس کا مقصد یہ نہیں کہ کامیڈین ہونایا کامیڈی کردار کرنا کوئی عیب دار بات ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں کہ جس میں ہم جی رہے ہیں،ایک کامیڈین کا کردار کسی مسیحا سے کم نہیں ہے،لیکن فرحت عباس شاہ صاحب!دُنیائے شعروادب کا ایک اتنا بڑا نام! اور وہ بھی ایک معمولی سے کردار میں!یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا، حالانکہ فرحت عباس شاہ صاحب میڈیا سیکٹر سے کافی عرصے سے منسلک ہیں،اور مختلف چینلز پہ الگ الگ نوعیت کہ پروگرامز بھی کرتے رہے ہیں۔لیکن دُکھ اور تکلیف اس بات کی تھی کہ یہ اُن کا مقام نہیں ہے،اُنکا نام دُنیائے شعروادب کے اُن درخشاں ستاروں میں آتا ہے کہ جو ہمیشہ ہمیشہ آسمانِ ادب پر چمکتے رہیں گے۔سچ پوچھئے تو مجھ سمیت ہماری جنریشن کے سارے لکھاری فرحت عباس شاہ ،اُن کے ہم عصر، اور اُن سے سینیئر لکھاریوں کو پڑھ پڑھ کے لکھنا سیکھے ہیں،اور ہم سب لوگ اپنے ڈاریکٹ یا اِن ڈاریکٹ ان سارے سینیئراُستادوں سے بُہت محبت کرتے ہیں،اور یہی وجہ تھی کے میری تکلیف اور دُکھ اُن کے لاکھوں چاہنے والوں کیطرح بجا تھا،کیونکہ دُنیا کا کوئی بھی شخص اپنے محبوب کو اگر اُسکا اصل مقام نہ ملتے دیکھے،اور اُسے اُس کے اصل مقام سے چھوٹا کام کرتے دیکھے،تو تکلیف اور دُکھ تو ہونا ہی ہے۔
اس حوالے سے پچھلے دنوں گُلِ نوخیز اختر صاحب نے ایک کالم بھی لکھا،جس کا نام تھا ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک“،گُلِ نوخیز اختر صاحب نے فرحت عباس شاہ صاحب کے کراٹے میں ننجا ماسٹر ہونے سے لیکر جیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں ایک چھوٹا سا کردار ماسڑ جی کرنے تک کی روداد اپنے ذاتی تجربے کے مطابق اپنے اس کالم میں بیان کی ہے، بلکہ اپنے بھرپور تنقیدی تجزیے کی شکل میں اس کالم میں بیان کی ہے ،اُس کالم میں اُنہوں نے اس سارے سفر میں فرحت عباس شاہ صاحب کی ذات کے حوالے سے کافی پہلو بیان کئے ہیں،جس میں فرحت عباس شاہ صاحب کی شہرت کے عروج کے دور میں لوگوں سے بد تمیزیاں کرنے ،اُنہیں گالیا ں دینے سے لیکر سینیئرز کو کچھ بھی نہ سمجھنااور رھ رھ کر اپنی فیلڈز بدلتے رہنے کو باقائدگی سے بیان کِیا ہے۔گُلِ نوخیز اخترصاحب کا کہنا ہے کہ فرحت عباس شاہ صاحب نے ننجا ماسٹری کی ،شاعری کی، پبلشربنے،سیاسی رسالہ نکالہ،گُلوکاری کی،اداکاری کی ،کامیڈی کریکٹر کئے ریڈیو پر بھی ہُنر آزمایا،مگر اُنہیں ہر جگہ ناکامی کا سامنا ہُوا۔مزید اِس حوالے سے گُلِ نوخیز اختر صاحب کے کالم ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک “کا کچھ حصہ آپ قارئین کی نظر کر رہا ہوں،وہ لکھتے ہیں کہ
”دوسروں کا جینا حرام کرنے والا خود در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگا،پتہ نہیں کس کس کی بد دُعا اُس کے تعاقب میں تھی کہ جہاں بھی جاتا ایک بڑی سی ناکامی مُنہ کھولے اُس کا منتظر ہوتی۔آج یہ ننجا ماسٹر بے بسی کی تصویر بنا ایک بڑے ٹی وی چینل کے بڑے ٹی وی پروگرام میں کامیڈینزکی جگتیں سُننے بیٹھا ہُوا ہے۔ننجا تو وہ رہا نہیں ،ماسٹر البتہ اب بھی ہے ،اور ماسٹر بھی ایسا کہ ایک بھی کام کا جُملہ بولنے کے قابل نہیں۔کامیڈینز اُس کے بولتے ہی اُس پر پل پڑتے ہیں اور یہ ہونقوں کی طرح اُنکا مُنہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔دوسروں کو ذلیل کرنے والا لاکھوں لوگوں کی ٹی وی اسکرینزپر”مقامِ عبرت “بنا ہُواہے۔یہ وہی ننجا ماسٹر ہے جس کی شاعری کا ہر طرف چرچہ تھا، کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جینوئن شاعر تھالیکن اب اپنے کرتوتوں کی باعث دیمک زدہ انسان کی صورت اپنی تذلیل خود کروارہا ہے،جتنے زخم اس نے اپنی فرعونیت کے دورمیں سینیئر شاعروں ادیبوں کو لگائے تھے اُس سے ہزار گُنا زیادہ ”ٹھاپیں“اُسے کامیڈینز لگا رہے ہیں۔لاکھوں کی رائلٹی لینے والا محض 7ہزار میں اپناتوا لگوا رہا ہے۔ننجا ماسٹر کے سب حواری اس سے فائدہ اُٹھا کر اِسے چھوڑ چُکے ہیں اور جن کو یہ گالیاں دیتا تھا اُن کی عزت کئی گُنا بڑھ چُکی ہے لیکن یہ خود کہاں کھڑا ہے؟گالیاں دینے کی اِس کی روش آج بھی برقرار ہے،لیکن اب اسکی گالیوں میں بد دُعا کا رنگ جھلکنے لگا ہے․․․․․․․خُدا کسی دُشمن پر بھی یہ وقت نہ لائے۔وہ جو سُنتے تھے خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے،اس کی حقیقت واضع شکل میں سامنے ہے۔میں کانپ جاتا ہوں یہ سوچ کر کہ کیا یہ وہی شخص ہے جسے خُدا نے شہرت اور عزت کی بُلندیاں عطا کی تھیں؟جس کے ایک آٹو گراف کے لئے لڑکے لڑکیوں کی لائنیں لگ جایا کرتی تھیں؟جو”شام کے بعد “ بلکہ رات کے بعد بھی اپنی موجودگی ثابت کرنے پر قادر تھا؟جس پر کوئی جملہ لگانے کی ہمت نہیں کرتا تھا؟جس کی آمد پر ٹی ہاؤس میں خاموشی چھا جاتی تھی؟؟؟شاعری نے اسے عزت دی تھی لیکن شاعری اب اس کی ترجیح نہیں رہی،اب ننجا ماسٹر حقیقی زندگی میں صرف ایک ماسٹر ہے․․․․․MASTER OF NONE․․․․!!!۔ “
یہ تھا گُلِ نوخیز اختر صاحب کے کالم ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک“کا ایک چھوٹا سا حصہ جو میں نے آپ سے شیئر کِیا، اب کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُن سے اس قسم کا کالم جناب عطاالحق قاسمی صاحب نے لکھوایاہے،اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ عطاالحق قاسمی صاحب خود فیض# صاحب اور مُنیر# نیازی صاحب کوبھی گالیاں دیا کرتے تھے اور اُن کے حوالے سے غلط الفاظ استعمال کِیا کرتے تھے،جس کے گواہ اُنکے ماضی میں لکھے ہوئے کالم ہیں،اوریہ سلسلہ بھی اُس ہی کڑی کا حصہ ہے۔اصل حقیقت توگُلِ نوخیز اختر صاحب،فرحت عباس شاہ صاحب ،عطاالحق قاسمی صاحب اور میرا اللہ ہی جانتا ہے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
یہاں فرحت عباس شاہ صاحب کے حوالے سے اُن کے ادبی ، سماجی اوراسلامی نظریے کے تحت جو کام اُنہوں نے کئے ،اُنکا بیان نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔فرسٹ شریعہ سرٹیفائیڈاسلامک مائکروفنانس انسٹیٹیوٹ”فرض فاؤندیشن“کے بانی اور لوگوں کی اِس نسبت سے مددکرنے اور اس مشن کو چلانے کے لئے اپنا گھر تک بیچنے والی شخصیت بھی فرحت عباس شاہ صاحب ہی ہیں،اُن کی69 کتابوں میں خالصتہً اسلامک مائیکروفنانس کے کانسیپٹ پہ” Wellcome To Islamic Microfinance “ اور”Twist Up Economy Theory“ نام سے دو کتابیں بھی شامل ہیں،بقایا 67 کتابوں میں46 شعری مجموعے اور 21متفرق کتابیں شامل ہیں ،جن میں انتخابات ،تراجم اور تنقیدی کتابیں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کانام پاکستان کہ نامورشاعروں اور ادیبوں میں آتا ہے،اور لاکھوں لوگ آج بھی اُن سے محبت کرتے ہیں۔اور یہ ہی وجہ تھی کہ اُنہیں جیو ٹی وی کے پروگرام ”خبرناک“ میں ایک چھوٹا سا کردار کرتے دیکھ کر مجھے اور مجھ سمیت اُن کے تمام چاہنے والوں کو کافی دُکھ پہنچا۔میں اور میرے دوست احباب ا س مو ضوع پہ اکثر بات کرتے رہتے تھے،اورپھر بلاآخر یہی کہہ کر چُپ ہو جایا کرتے تھے کہ ہماری خواہشیں اپنی جگہ لیکن فرحت عباس شاہ صاحب کے حالات ومعاملات اور اس حوالے سے اُن کا پوائنٹ آف ویو کیا ہے، وہ تو فرحت عباس شاہ صاحب خود ہی جانتے ہیں کہ وہ یہ پروگرام کیوں اور کس لئے کر رہے ہیں۔
پھر ایک دن فرحت عباس شاہ صاحب نے اپنے ایک فیس بُک کالم ”کیا شاعر صرف واہ اوہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“میںآ فتاب اقبال صاحب اورجیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“کی ایک درباری لکھاریوں کی طرح تعریفیں لکھنے کے دوران اپنے اِس پروگرام میں کام کرنے اور اپنے چاہنے والوں کے ری ایکشن کے حوالے سے کچھ اِس طرح بیان کِیا
”جیوٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں میری شمولیت پر مجھ سے محبت کرنے والوں نے جس شدت کے ساتھ اپنے غم،غُصے اور دُکھ کا اظہار کِیا، اُس نے مجھے ہِلا کے رکھ دیا۔لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کو پتہ تھا کہ میں اپنی تمام جمع پونجی اور گھر باراسلامک مائیکروفنانس کے فرض ماڈل کے ذریعے4000سے زیادہ غریب خاندانوں کی مدد کرنے پر صَرف کر چُکا ہوں، اور اب میں مختلف جابز کر کے ہی گھر اور فرض فاؤنڈیشن چلاتا ہوں،انہوں نے مجھے کسی کی بات پرکان دھرنے کے بجائے مزدوری جاری رکھنے کا حُکم صادر کر دیا۔“
اُن کی یہ تحریر پڑھنے کے بعدمجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس سے کہا جائے اور کیا کہاجائے؟گُلِ نوخیز اختر صاحب کی باتیں اپنی جگہ ،فرحت عباس شاہ صاحب کے چاہنے والوں کا غم اور ارمان اپنی جگہ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ فرحت عباس شاہ صاحب کا مُدّعااوردلیل اپنی جگہ ایک مضبوط اہمیت رکھتے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اِس قوم کی اخلاقی ،ادبی اور معاشرتی شعور کی تربیت کرنے والے ،اِن کی سوچوں کو جِلا بخشنے والے،اِن کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والے،اِنہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے والے،محبت، خُلوص ،سچائی اورحُب الوطنی جیسے پہلوؤں کی نشوونُماکرنے والے، ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کواُنکی تحریروں، کتابوں،فکر ،رنج وغم،رتجگوں،بھوک وافلاس اور عُمر بھر کی ریاضتوں کے بدلے اُنکی زندگی میں نہ ہمارہ معاشرہ اُنہیں اُنکا اصل مقام عطا کرتا ہے اور نہ ہی ہماری حُکومتیں۔
لیکن جب ہمارا اَدیب ،شاعر، دانشوریا کوئی بھی فنکاراپنی اور اپنی اولاد کی زندگی اور مستقبل کوروشن کرنے کے حوالے سے اپنی مدد آپ کے تحت کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو مجھ جیسے کم عقل غم و غُصے کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔میرے خیال میں ہمیں کسی بھی شخص کا اپنے ذہن میں کوئی بھی خاکہ تیار کرنے،اُس سے شکوے شکایتیں کرنے یا کوئی اور رائے قائم کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیئے،کہ وہ شخص کچھ بھی ہونے سے پہلے ،صرف ایک انسان ہے،اور اُسے انسانی ضروریاتِ زندگی کی ہر اُس چیز کی ضرورت بلکل اُسی طرح رہتی ہے جیسے کہ ہمیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ فرحت عباس شاہ صاحب یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ”کیا شاعر صرف واہ واہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“؟اور میرے خیال میں یقینا میں اور آپ یہ بات باخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ صرف واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا۔
عطاٗ الحق قاسمی کا نام بھی لیا جا رہا ہے
صرف واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا
http://daily.urdupoint.com/columns/...9/sirf-wah-wah-se-pait-nahi-bharta-20468.html
ندیم گُلانی :
پھر ایک دن فرحت عباس شاہ صاحب نے اپنے ایک فیس بُک کالم ”کیا شاعر صرف واہ اوہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“میںآ فتاب اقبال صاحب اورجیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“کی ایک درباری لکھاریوں کی طرح تعریفیں لکھنے کے دوران اپنے اِس پروگرام میں کام کرنے اور اپنے چاہنے والوں کے ری ایکشن کے حوالے سے کچھ اِس طرح بیان کِیا
”جیوٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں میری شمولیت پر مجھ سے محبت کرنے والوں نے جس شدت کے ساتھ اپنے غم،غُصے اور دُکھ کا اظہار کِیا، اُس نے مجھے ہِلا کے رکھ دیا۔لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کو پتہ تھا کہ میں اپنی تمام جمع پونجی اور گھر باراسلامک مائیکروفنانس کے فرض ماڈل کے ذریعے4000سے زیادہ غریب خاندانوں کی مدد کرنے پر صَرف کر چُکا ہوں، اور اب میں مختلف جابز کر کے ہی گھر اور فرض فاؤنڈیشن چلاتا ہوں،انہوں نے مجھے کسی کی بات پرکان دھرنے کے بجائے مزدوری جاری رکھنے کا حُکم صادر کر دیا۔“
کچھ عرصہ قبل کچھ دوستوں نے ایک خبر مجھے انتہائی حیرت کے عالم میں سُنائی،خبر یہ تھی کے دُنیائے شعروادب کے ایک بُہت بڑے نام جناب فرحت عباس شاہ صاحب جیو ٹی وی کے آفتاب اقبال صاحب کے پروگرام ”خبرناک“ میں ایک کامیڈی کردار کر رہے ہیں،اور پھر اُس کے بعد وہ پروگرام مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہُوا۔یقین جانیئے فرحت عباس شاہ صاحب کے لاکھوں چاہنے والوں کیطرح مجھے بھی ایک دھچکاسا لگا،دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ ایک اتنا بڑا ادیب اور شاعرایک ایسے پروگرام میں اِس قسم کا معمولی سا کردار کر رہا ہے،اِس کا مقصد یہ نہیں کہ کامیڈین ہونایا کامیڈی کردار کرنا کوئی عیب دار بات ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں کہ جس میں ہم جی رہے ہیں،ایک کامیڈین کا کردار کسی مسیحا سے کم نہیں ہے،لیکن فرحت عباس شاہ صاحب!دُنیائے شعروادب کا ایک اتنا بڑا نام! اور وہ بھی ایک معمولی سے کردار میں!یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا، حالانکہ فرحت عباس شاہ صاحب میڈیا سیکٹر سے کافی عرصے سے منسلک ہیں،اور مختلف چینلز پہ الگ الگ نوعیت کہ پروگرامز بھی کرتے رہے ہیں۔لیکن دُکھ اور تکلیف اس بات کی تھی کہ یہ اُن کا مقام نہیں ہے،اُنکا نام دُنیائے شعروادب کے اُن درخشاں ستاروں میں آتا ہے کہ جو ہمیشہ ہمیشہ آسمانِ ادب پر چمکتے رہیں گے۔سچ پوچھئے تو مجھ سمیت ہماری جنریشن کے سارے لکھاری فرحت عباس شاہ ،اُن کے ہم عصر، اور اُن سے سینیئر لکھاریوں کو پڑھ پڑھ کے لکھنا سیکھے ہیں،اور ہم سب لوگ اپنے ڈاریکٹ یا اِن ڈاریکٹ ان سارے سینیئراُستادوں سے بُہت محبت کرتے ہیں،اور یہی وجہ تھی کے میری تکلیف اور دُکھ اُن کے لاکھوں چاہنے والوں کیطرح بجا تھا،کیونکہ دُنیا کا کوئی بھی شخص اپنے محبوب کو اگر اُسکا اصل مقام نہ ملتے دیکھے،اور اُسے اُس کے اصل مقام سے چھوٹا کام کرتے دیکھے،تو تکلیف اور دُکھ تو ہونا ہی ہے۔
اس حوالے سے پچھلے دنوں گُلِ نوخیز اختر صاحب نے ایک کالم بھی لکھا،جس کا نام تھا ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک“،گُلِ نوخیز اختر صاحب نے فرحت عباس شاہ صاحب کے کراٹے میں ننجا ماسٹر ہونے سے لیکر جیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں ایک چھوٹا سا کردار ماسڑ جی کرنے تک کی روداد اپنے ذاتی تجربے کے مطابق اپنے اس کالم میں بیان کی ہے، بلکہ اپنے بھرپور تنقیدی تجزیے کی شکل میں اس کالم میں بیان کی ہے ،اُس کالم میں اُنہوں نے اس سارے سفر میں فرحت عباس شاہ صاحب کی ذات کے حوالے سے کافی پہلو بیان کئے ہیں،جس میں فرحت عباس شاہ صاحب کی شہرت کے عروج کے دور میں لوگوں سے بد تمیزیاں کرنے ،اُنہیں گالیا ں دینے سے لیکر سینیئرز کو کچھ بھی نہ سمجھنااور رھ رھ کر اپنی فیلڈز بدلتے رہنے کو باقائدگی سے بیان کِیا ہے۔گُلِ نوخیز اخترصاحب کا کہنا ہے کہ فرحت عباس شاہ صاحب نے ننجا ماسٹری کی ،شاعری کی، پبلشربنے،سیاسی رسالہ نکالہ،گُلوکاری کی،اداکاری کی ،کامیڈی کریکٹر کئے ریڈیو پر بھی ہُنر آزمایا،مگر اُنہیں ہر جگہ ناکامی کا سامنا ہُوا۔مزید اِس حوالے سے گُلِ نوخیز اختر صاحب کے کالم ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک “کا کچھ حصہ آپ قارئین کی نظر کر رہا ہوں،وہ لکھتے ہیں کہ
”دوسروں کا جینا حرام کرنے والا خود در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگا،پتہ نہیں کس کس کی بد دُعا اُس کے تعاقب میں تھی کہ جہاں بھی جاتا ایک بڑی سی ناکامی مُنہ کھولے اُس کا منتظر ہوتی۔آج یہ ننجا ماسٹر بے بسی کی تصویر بنا ایک بڑے ٹی وی چینل کے بڑے ٹی وی پروگرام میں کامیڈینزکی جگتیں سُننے بیٹھا ہُوا ہے۔ننجا تو وہ رہا نہیں ،ماسٹر البتہ اب بھی ہے ،اور ماسٹر بھی ایسا کہ ایک بھی کام کا جُملہ بولنے کے قابل نہیں۔کامیڈینز اُس کے بولتے ہی اُس پر پل پڑتے ہیں اور یہ ہونقوں کی طرح اُنکا مُنہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔دوسروں کو ذلیل کرنے والا لاکھوں لوگوں کی ٹی وی اسکرینزپر”مقامِ عبرت “بنا ہُواہے۔یہ وہی ننجا ماسٹر ہے جس کی شاعری کا ہر طرف چرچہ تھا، کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جینوئن شاعر تھالیکن اب اپنے کرتوتوں کی باعث دیمک زدہ انسان کی صورت اپنی تذلیل خود کروارہا ہے،جتنے زخم اس نے اپنی فرعونیت کے دورمیں سینیئر شاعروں ادیبوں کو لگائے تھے اُس سے ہزار گُنا زیادہ ”ٹھاپیں“اُسے کامیڈینز لگا رہے ہیں۔لاکھوں کی رائلٹی لینے والا محض 7ہزار میں اپناتوا لگوا رہا ہے۔ننجا ماسٹر کے سب حواری اس سے فائدہ اُٹھا کر اِسے چھوڑ چُکے ہیں اور جن کو یہ گالیاں دیتا تھا اُن کی عزت کئی گُنا بڑھ چُکی ہے لیکن یہ خود کہاں کھڑا ہے؟گالیاں دینے کی اِس کی روش آج بھی برقرار ہے،لیکن اب اسکی گالیوں میں بد دُعا کا رنگ جھلکنے لگا ہے․․․․․․․خُدا کسی دُشمن پر بھی یہ وقت نہ لائے۔وہ جو سُنتے تھے خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے،اس کی حقیقت واضع شکل میں سامنے ہے۔میں کانپ جاتا ہوں یہ سوچ کر کہ کیا یہ وہی شخص ہے جسے خُدا نے شہرت اور عزت کی بُلندیاں عطا کی تھیں؟جس کے ایک آٹو گراف کے لئے لڑکے لڑکیوں کی لائنیں لگ جایا کرتی تھیں؟جو”شام کے بعد “ بلکہ رات کے بعد بھی اپنی موجودگی ثابت کرنے پر قادر تھا؟جس پر کوئی جملہ لگانے کی ہمت نہیں کرتا تھا؟جس کی آمد پر ٹی ہاؤس میں خاموشی چھا جاتی تھی؟؟؟شاعری نے اسے عزت دی تھی لیکن شاعری اب اس کی ترجیح نہیں رہی،اب ننجا ماسٹر حقیقی زندگی میں صرف ایک ماسٹر ہے․․․․․MASTER OF NONE․․․․!!!۔ “
یہ تھا گُلِ نوخیز اختر صاحب کے کالم ”ننجا ماسٹر سے اسکول ماسٹر تک“کا ایک چھوٹا سا حصہ جو میں نے آپ سے شیئر کِیا، اب کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُن سے اس قسم کا کالم جناب عطاالحق قاسمی صاحب نے لکھوایاہے،اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ عطاالحق قاسمی صاحب خود فیض# صاحب اور مُنیر# نیازی صاحب کوبھی گالیاں دیا کرتے تھے اور اُن کے حوالے سے غلط الفاظ استعمال کِیا کرتے تھے،جس کے گواہ اُنکے ماضی میں لکھے ہوئے کالم ہیں،اوریہ سلسلہ بھی اُس ہی کڑی کا حصہ ہے۔اصل حقیقت توگُلِ نوخیز اختر صاحب،فرحت عباس شاہ صاحب ،عطاالحق قاسمی صاحب اور میرا اللہ ہی جانتا ہے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
یہاں فرحت عباس شاہ صاحب کے حوالے سے اُن کے ادبی ، سماجی اوراسلامی نظریے کے تحت جو کام اُنہوں نے کئے ،اُنکا بیان نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔فرسٹ شریعہ سرٹیفائیڈاسلامک مائکروفنانس انسٹیٹیوٹ”فرض فاؤندیشن“کے بانی اور لوگوں کی اِس نسبت سے مددکرنے اور اس مشن کو چلانے کے لئے اپنا گھر تک بیچنے والی شخصیت بھی فرحت عباس شاہ صاحب ہی ہیں،اُن کی69 کتابوں میں خالصتہً اسلامک مائیکروفنانس کے کانسیپٹ پہ” Wellcome To Islamic Microfinance “ اور”Twist Up Economy Theory“ نام سے دو کتابیں بھی شامل ہیں،بقایا 67 کتابوں میں46 شعری مجموعے اور 21متفرق کتابیں شامل ہیں ،جن میں انتخابات ،تراجم اور تنقیدی کتابیں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کانام پاکستان کہ نامورشاعروں اور ادیبوں میں آتا ہے،اور لاکھوں لوگ آج بھی اُن سے محبت کرتے ہیں۔اور یہ ہی وجہ تھی کہ اُنہیں جیو ٹی وی کے پروگرام ”خبرناک“ میں ایک چھوٹا سا کردار کرتے دیکھ کر مجھے اور مجھ سمیت اُن کے تمام چاہنے والوں کو کافی دُکھ پہنچا۔میں اور میرے دوست احباب ا س مو ضوع پہ اکثر بات کرتے رہتے تھے،اورپھر بلاآخر یہی کہہ کر چُپ ہو جایا کرتے تھے کہ ہماری خواہشیں اپنی جگہ لیکن فرحت عباس شاہ صاحب کے حالات ومعاملات اور اس حوالے سے اُن کا پوائنٹ آف ویو کیا ہے، وہ تو فرحت عباس شاہ صاحب خود ہی جانتے ہیں کہ وہ یہ پروگرام کیوں اور کس لئے کر رہے ہیں۔
پھر ایک دن فرحت عباس شاہ صاحب نے اپنے ایک فیس بُک کالم ”کیا شاعر صرف واہ اوہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“میںآ فتاب اقبال صاحب اورجیو ٹی وی کے پروگرام” خبرناک“کی ایک درباری لکھاریوں کی طرح تعریفیں لکھنے کے دوران اپنے اِس پروگرام میں کام کرنے اور اپنے چاہنے والوں کے ری ایکشن کے حوالے سے کچھ اِس طرح بیان کِیا
”جیوٹی وی کے پروگرام” خبرناک“ میں میری شمولیت پر مجھ سے محبت کرنے والوں نے جس شدت کے ساتھ اپنے غم،غُصے اور دُکھ کا اظہار کِیا، اُس نے مجھے ہِلا کے رکھ دیا۔لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کو پتہ تھا کہ میں اپنی تمام جمع پونجی اور گھر باراسلامک مائیکروفنانس کے فرض ماڈل کے ذریعے4000سے زیادہ غریب خاندانوں کی مدد کرنے پر صَرف کر چُکا ہوں، اور اب میں مختلف جابز کر کے ہی گھر اور فرض فاؤنڈیشن چلاتا ہوں،انہوں نے مجھے کسی کی بات پرکان دھرنے کے بجائے مزدوری جاری رکھنے کا حُکم صادر کر دیا۔“
اُن کی یہ تحریر پڑھنے کے بعدمجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس سے کہا جائے اور کیا کہاجائے؟گُلِ نوخیز اختر صاحب کی باتیں اپنی جگہ ،فرحت عباس شاہ صاحب کے چاہنے والوں کا غم اور ارمان اپنی جگہ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ فرحت عباس شاہ صاحب کا مُدّعااوردلیل اپنی جگہ ایک مضبوط اہمیت رکھتے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اِس قوم کی اخلاقی ،ادبی اور معاشرتی شعور کی تربیت کرنے والے ،اِن کی سوچوں کو جِلا بخشنے والے،اِن کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والے،اِنہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے والے،محبت، خُلوص ،سچائی اورحُب الوطنی جیسے پہلوؤں کی نشوونُماکرنے والے، ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کواُنکی تحریروں، کتابوں،فکر ،رنج وغم،رتجگوں،بھوک وافلاس اور عُمر بھر کی ریاضتوں کے بدلے اُنکی زندگی میں نہ ہمارہ معاشرہ اُنہیں اُنکا اصل مقام عطا کرتا ہے اور نہ ہی ہماری حُکومتیں۔
لیکن جب ہمارا اَدیب ،شاعر، دانشوریا کوئی بھی فنکاراپنی اور اپنی اولاد کی زندگی اور مستقبل کوروشن کرنے کے حوالے سے اپنی مدد آپ کے تحت کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو مجھ جیسے کم عقل غم و غُصے کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔میرے خیال میں ہمیں کسی بھی شخص کا اپنے ذہن میں کوئی بھی خاکہ تیار کرنے،اُس سے شکوے شکایتیں کرنے یا کوئی اور رائے قائم کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیئے،کہ وہ شخص کچھ بھی ہونے سے پہلے ،صرف ایک انسان ہے،اور اُسے انسانی ضروریاتِ زندگی کی ہر اُس چیز کی ضرورت بلکل اُسی طرح رہتی ہے جیسے کہ ہمیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ فرحت عباس شاہ صاحب یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ”کیا شاعر صرف واہ واہ پہ زندہ رہ سکتا ہے“؟اور میرے خیال میں یقینا میں اور آپ یہ بات باخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ صرف واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا۔