ننجا ماسٹر سے سکول ماسٹر تک (دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو)

ننجا ماسٹر سے سکول ماسٹر تک
گل نوخیز اختر
میں اُسے بیس سال سے جانتا ہوں‘ پہلے اُس کی پہچان ’’ ننجا ماسٹر‘‘ تھی‘ پھر اس کی شاعری نے دھوم مچائی‘ یہ وہ دن تھے جب ٹی ہاؤس لاہو رمیں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس نہایت بھرپور ہوا کرتے تھے۔ہمارے جیسے نوجوان سب کام چھوڑ کر ان اجلاسوں میں شرکت کرتے اور بعد میں چائے کی میز پر بیٹھ کر شاعری اور نثر پر بحث شروع ہوتی اور رات گزرنے کا پتا ہی نہ چلتا۔ ’’ ننجا ماسٹر‘‘ کا کردار ہمارے لیے بہت افسانوی تھا‘ یہ وہ دن تھے جب ’’بروس لی‘‘ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر مارشل آرٹس کا رعب دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے سامنے بیٹھا ’’ ننجا ماسٹر‘‘کسی بھی وقت جیب میں سے ایک ستارہ نکالے گا اور جس کی طرف بھی پھینکے گا وہ دھواں بن کر اڑ جائے گا‘ اس کی فلائنگ کک بھی بڑی مشہور تھی اسی لیے سارے شاعر ادیب اس کے سامنے سہمے سہمے سے رہتے تھے۔ اُن دنوں ’’ ننجا ماسٹر‘‘ اپنے ہم خیالوں میں گھرا رہتا تھا‘ جو کوئی بھی ننجا ماسٹر کی شاعری پر تھوڑی سی بھی تنقید کرتا‘ ننجا ماسٹر کے ہم خیال اُس کی ماں بہن ایک کردیتے۔حلقہ ارباب ذوق میں بھی ننجا ماسٹر جس کی تخلیق کی چاہتا دھجیاں بکھیر دیتا اور ایسے ایسے ناقابل بیان جملے استعمال کرتا کہ تخلیق کار کی حمایت میں کسی کو بولنے کی ہمت ہی نہ پڑتی۔یہی وہ دن تھے جب ننجا ماسٹر کے ہم خیالوں نے ٹی ہاؤس میں پھیلا دیا کہ ننجا ماسٹر اصل میں ایجنسیوں کا بندہ ہے۔یہ پتا چلتے ہی کئی کمزور دل شاعروں ادیبوں کی بولتی بند ہوگئی‘ وہ جو پہلے کبھی کبھار اِس کی باتوں سے اختلاف کرلیا کرتے تھے انہوں نے بھی چپ سادھ لی۔ننجا ماسٹر کو اور حوصلہ ملا اور اب اُس نے سر عام شاعروں ادیبوں کی پگڑیاں اچھالنی شروع کر دیں‘ یہ سلسلہ سرگوشیوں میں لپٹی گالیوں سے شروع ہوااور باآواز بلند غلیظ جملوں میں تبدیل ہوگیا۔ہر ہفتے ٹی ہاؤس میں ننجا ماسٹر کی ایک نئی حرکت دیکھنے کو ملتی‘ کبھی اعلان ہوتا کہ سینئر شعراء کے جنازے نکالے جائیں گے‘ کبھی انہیں ہیجڑوں سے تشبیہ دی جاتی اور کبھی انہیں ہم جنس پرست ثابت کرنے کے لیے مضامین لکھے جاتے ۔وہ مضامین تو آج بھی میرے پاس موجود ہیں جن میں صف اول کے شاعروں ادیبوں کے بارے میں ’’حرام کی اولاد‘‘ تک کے الفاظ لکھے گئے۔ننجا ماسٹر کو روکنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ موصوف نہ صرف اپنی لڑائی مار کٹائی کے قصے سر عام بیان کیا کرتے تھے بلکہ اپنی ہاں میں ہاں ملانے والوں کا ہجوم بھی ہمرا ہ رکھتے تھے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ننجا ماسٹر کی تمام تر دہشت زبانی کلامی تھی ورنہ آج تک اسے کسی نے لڑتے نہیں دیکھالیکن شاعر ادیب چونکہ طبعاً بزدل ہوتے ہیں اس لیے انہیں صرف اتنا پتاتھا کہ یہ بندہ ننجا ماسٹر بھی ہے اور ایجنسیوں کا آلہ کار بھی۔۔۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی عزت کے خوف سے دبکا بیٹھا رہتا۔پھر اچانک ننجا ماسٹر کو شاعری میں تجربات کا شوق چڑھا اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہوا۔ نظم کے نام پر اس نے ہر اُس شاعر کو گالیاں دیں جو اُسے پسند نہیں تھا‘ لیکن چونکہ ننجا ماسٹر کی کتابیں دھڑا دھڑ فروخت ہوتی تھیں اس لیے پبلشر ز اس کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔ننجا ماسٹر کے حواریوں نے بھی اس بات کا فائدہ اٹھایا اور ننجا ماسٹر کی حمایت میں ’’مہاتما خود‘‘ جیسی کتابیں لکھ ماریں‘ ان کتابوں کو ویسے تو شائد کوئی نہ چھاپتا لیکن ننجا ماسٹر اُن دنوں ہاٹ کیک بنا ہوا تھا لہذااس کے ایک اشارہ ابرو پر پبلشرز نے اِس کے حواریوں کی کتابیں بھی شائع کر دیں۔اُن دنوں یہ مشہور تھا کہ اگر کوئی صاحب کتاب بننا چاہتا ہے تو ’’ ننجا ماسٹر‘‘ پر ایک کتاب لکھ دے‘ فوراً چھپ جائے گی۔بیس سال پہلے کا ننجا ماسٹر انتہائی جگت باز تھا‘ کسی کی بات کو اُچک لیتا اور جو منہ میں آتا بول دیتا۔۔۔ قہقہے بھی لگ جاتے اوردہشت بھی بڑھ جاتی۔ایک دن ننجا ماسٹر کو خیال آیا کہ پبلشرز اس کی کتابیں چھاپ چھاپ کر لاکھوں کما رہے ہیں کیوں نہ وہ خود پبلشر بن جائے۔ یہ اس کا ایک اور غلط فیصلہ تھا۔اس نے اپنا پبلشنگ کا ادارہ کھول لیا۔اب اس کے ادارے سے جو بھی کتاب شائع ہوتی اس کے دیباچے میں یہ جی بھر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا اور شاعروں ادیبوں کی مٹی پلید کرتا۔اسی ادارے کے تحت اس نے سیاسی رسالہ بھی شروع کر لیا لیکن وہاں اس کی دہشت نہ چل سکی ۔انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ Fame is money (شہرت ہی پیسہ ہے) ننجا ماسٹر کا ’’کاروبار‘‘ چونکہ مسلسل گھاٹے میں جارہا تھا اس لیے اُس نے پینترا بدلا اور اب کی باراپنی گلوکاری آزمانے کا فیصلہ کیا۔کھردری اور بیٹھی ہوئی آواز کے باوجود اس کے حواریوں نے اس کو اچھل اچھل کر سراہا تو اسے بھی یقین ہوگیا کہ وہ ’’کمار سانو‘‘ ہے ۔گلوکاری میں اپنا پورا زور لگانے کے باوجود بھی جب اس کی دال نہ گلی تو اس نے اداکاری کے سمندر میں چھلانگ لگانے کا سوچا اور کامیڈین بن گیا۔اس کا خیال تھا کہ اس کی جگتوں سے چونکہ یاروں دوستوں کی محفل میں قہقہے لگتے ہیں لہذا یہ ٹی وی پر بھی میدان مارلے گا۔اس سے کم ازکم ایک فائدہ ضرور ہوا کہ جو لوگ اس کے سامنے خوف کے باعث اپنی ہنسی دبا جاتے تھے وہ اب کھل کر ہنسنے لگے۔پاکستان کے ہر چوتھے درجے کے چینل پر ’’ ننجا ماسٹر‘‘ نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے‘ کبھی بابا بن کر باقاعدہ گدھے پر بیٹھا‘ کبھی ریڈیو پر اپنا ہنر آزمایا لیکن دال نہیں گلی۔دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے والا خود دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگا‘ پتا نہیں کس کس کی بددعا اس کے تعاقب میں تھی کہ جہاں بھی جاتا ایک بڑی سی ناکامی منہ کھولے اس کا منتظر ہوتی۔
آج یہ ننجا ماسٹر بے بسی کی تصویر بنا ایک بڑے ٹی وی چینل کے بڑے پروگرام میں کامیڈینز کی جگتیں سننے بیٹھا ہوتا ہے۔ ننجا تو وہ رہا نہیں‘ ماسٹر البتہ اب بھی ہے اور ماسٹر بھی ایسا کہ ایک بھی کام کا جملہ بولنے کے قابل نہیں۔کامیڈینز اِس کے بولتے ہی اس پرپل پڑتے ہیں اور یہ ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھتا رہ جاتاہے۔دوسروں کو ذلیل کرنے والا ہفتے میں تین دن لاکھوں لوگوں کی ٹی وی سکرینز پر ’’مقام عبرت‘‘ بنا ہوا ہے۔یہ وہی ننجا ماسٹر ہے جس کی شاعری کا ہر طرف چرچا تھا‘ کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جینوئن شاعر تھا لیکن اب اپنے کرتوتوں کے باعث دیمک زدہ انسان کی صورت اپنی تذلیل خود کروارہا ہے‘ جتنے زخم اس نے اپنی فرعونیت کے دور میں سینئر شاعروں ادیبوں کو لگائے تھے اُس سے ہزار گنا زیادہ ’’ٹھاپیں‘‘ اسے کامیڈینز لگا رہے ہیں۔جس کی کتابوں کی فروخت کی رائلٹی لاکھوں میں ہوتی تھی وہ محض 7 ہزار میں اپناتوا لگوا رہا ہے۔ننجا ماسٹر کے سب حواری اس سے فائدہ اٹھا کر اِسے چھوڑ چکے ہیں اور جن کو یہ گالیاں دیتا تھاان کی عزت کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن یہ خود کہاں کھڑا ہے؟ گالیاں دینے کی اِس کی روش آج بھی برقرار ہے‘ لیکن اب اس کی گالیوں میں بددعا کا رنگ جھلکنے لگا ہے۔۔۔ خدا کسی دشمن پر بھی یہ وقت نہ لائے۔وہ جو سنتے تھے خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘ اس کی حقیقت واضح شکل میں سامنے ہے۔۔۔ میں کانپ جاتا ہوں یہ سوچ کر کہ کیا یہ وہی شخص ہے جسے خدا نے شہرت اور عزت کی بلندیاں عطا کی تھیں؟ جس کے ایک آٹو گراف کے لیے لڑکے لڑکیوں کی لائنیں لگ جایا کرتی تھیں؟جو ’’شام کے بعد‘‘ بلکہ رات کے بعدبھی اپنی موجودگی ثابت کرنے پر قادر تھا ؟ جس پر کوئی جملہ لگانے کی ہمت نہیں کرتا تھا؟۔۔۔ جس کی آمد پر ٹی ہاؤس میں خاموشی چھا جاتی تھی؟؟؟ شاعری نے اسے عزت دی تھی لیکن شاعری اب اِس کی ترجیح نہیں رہی‘ اب ننجا ماسٹر حقیقی زندگی میں صرف ایک ماسٹر ہے۔۔۔ Master of None ۔۔۔!
آپ اس کو جانتے ہیں ؟ ف--- ---- ---
 

صائمہ شاہ

محفلین
اور وہ جسے چاہے عزت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برا وقت کبھی بھی کسی پر بھی آ سکتا ھے اس پر کالم لکھ کر تماشہ بنانے کی بجاے عبرت حاصل کریں
 
کسی مسلم پر مشکل وقت کا آنا دو وجوہات کی بناء پر ہو سکتا ہے، اس کی اعمال کا ردعمل یا اللہ کی طرف سے امتحان
دونوں صورتوں میں یہ مشکل وقت کیا رنگ لاتا ہے ۔۔۔۔اس کا دارومدار مشکل وقت میں اس مسلم کے رویے پر ہے
دونوں صورتوں میں اس وقت کو صبر و تحمل اور اسلامی اصولوں کے مطابق گزار دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا یا درجات کی بلندی اور وہ کامیاب ہو جائے گا
صورت دیگر حقیقی ناکامی کا سامنا کرنے کا اندیشہ رہے گا
 
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد
 

arifkarim

معطل
یہ تو جیو ٹی وی کے خبرناک والے ماسٹر جی کے بارہ میں ہے جس پر کالم نگار نے پاکستانی مرچ مصالحوں کا تڑکا لگا کر جذبہ ایمانی سے منور جاہل عوام میں فروخت کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی ہے :)
 

اوشو

لائبریرین
کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جینوئن شاعر تھا
-

اس بات سے بالکل متفق ہوں۔
لیکن شہرت ملنے کے بعد وہی ہوا جو بیان کیا گیا۔
اتنے مجموعہ جات چھاپے شاعری کے کہ میں کہتا تھا "فرحت عباس شاہ" ماہانہ شاعر ہے۔ یعنی کے کا شاعری کا نیا مجموعہ ماہانہ بنیادوں پر شائع ہوتا ہے۔ اور شاعری "بے سروپا"
پھر کالم نگاری جس کی کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ پھر گلوکاری کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔
بس مختصر بات یہ کہ "بھانڈے وچ بوہتا پے گیا سی"
 

جاسمن

لائبریرین
پنجاب یونیورسٹی سے اُنھیں گئے عرصہ ہو گیا تھا پھر بھی اِس جامعہ کی کشش ہی اِتنی ہے کہ وُہ اکثر آتے تھے۔ جامعہ کے سالانہ مشاعرے میں تو ضرور شریک ہوتے۔ دیگر شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی نظم" نہر کے کنارے پر" سُناتے۔ اُن دنوں اچھی اور ابھی ذرا کم ہی "مقدار/تعداد" تھی۔ ہم بہت فیسی نیٹ ہوتے تھے۔ کئی بار جامعہ میں اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا۔
شاپنگ سنٹر کی بک شاپ سے اکثر کتابیں لیا کرتی تھی۔ ایک دن موصوف کی ایک کتاب کا نام لے کر بک شاپ کے انکل سے دریافت کیا کہ ابھی تک آپ نے کیوں نہیں منگوائی۔ انکل نے میرے پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا"شاہ صاحب! فلاں کتاب تے پھیجو،مُک گئی اے" مُڑ ے بغیر سمجھ آ گئی کہ کون ہو سکتا ہے۔ خود پہ غصّہ بھی آیا ۔
ہمیں چونکہ کتاب سے غرض ہوتی تھی نہ کہ صاحبِ کتاب سے ،اِس لئے شرمندہ سے کنّی کترا کر نکل لئے۔
پھر تو اتنی کتابیں آئیں کہ چل سو چل۔
ان ہی کی طرح ایک اور بھی ہیں۔ ملتے جُلتے نام والے۔ اُن کی کتابوں کی تعداد بھی بالکل ایسی ہے اور شاید مزید حال بھی کچھ ملتا جُلتا ہے۔
اِس طرح کے مضامین ہمارے لئے عبرت کا باعث تو بنتے ہیں۔ لیکن کسی کی بے عزتی ہو رہی ہو تو تکلیف ہوتی ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گل نو خیز نے جو کچھ فرحت عباس شاہ کے بارے میں لکھا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ حقیقت ہے یا نہیں خود گل نوخیز بھی اس تحریر میں وہی کچھ کر رہے ہیں جس کے لیے نوخیز نے فرحت عباس شاہ کو معتوب ٹھہرایا ہے۔
 
کبھی کبھی دوستوں کے ہاں خبرناک دیکھنے کا اتفاق ہوتا ، تو اس ماسڑ جی کی جو حال بنائی جاتی اس پر مجھے بہت کوفت ہوتی تھی،بہت برا محسوس ہوتا،اس کی بے چارگی پر غصہ بھی آتا میں نہیں جانتا تھا کہ بندہ کون ہے، کل یہ تحریر پڑھی تو معلوم ہوا ، لیکں حیرانی پریشانی اور ایک عجیب کیفیت تھی ، افسوس اور غصہ ، ملی جلی کیفیتیں تھیں،عبرت کا مقام بھی، تو کالم کے عنوان کے ساتھ لکھ دیا (دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو)، ...
پہلے تو کالم پڑھ کر یہ یقین نہیں تھا کہ یہ فرحت عباس شاہ کے متعلق ہے بس ایک شک تھا پھر گوگل کیا تو آخری فقرہ لکھ دیا آپ اس کو جانتے ہیں ؟ ف--- ---- ---

پھر الف نظامی صاحب کے جوابات آئے اوربراوزنگ کی اور گوگل کیا ، تو سوچا کہ کیا گورکھ دھندا ہے اگر موصوف اسلامی مائیکرو فائنانس کے میدان میں غربت کے خاتمہ کے لیے فرض فاونڈیشن کے نام سے سرگرم عمل ہیں تو کہ اس آٖفتاب اقبال کے پروگرام میں ذلیل ہونے کی کیا ضرورت ہے ،کیا واقعی ہی موصوف کے مالی حالات بہت کمزور ہیں تو اس فرض فاونڈیشن کی کیا توجیح کیا جائے گی
 
اپنی اپنی سوچ ہے۔۔لیکن میرا خیال یہ ہے کہ "ماسٹر جی" کو مجاہدے میں سے گذارا جارہا ہے، اور یہ سب کسی کے حکم پر اختیار کیا ہوا ہے۔۔۔۔
 

شیزان

لائبریرین
گل نوخیز اختر کی گڈی بھی آج کل اسی طرح چڑھی ہوئی ہے جیسے کبھی فرحت عباس شاہ کی۔۔
ایسے الفاظ سے کسی کو نوازنا بالکل زیب نہیں دیتا۔۔۔ بہت توہین آمیز کالم ہے
آج کسی کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ کل ایسا وقت ان پر بھی آسکتا ہے۔۔۔
بہت بھڑاس نکالی ہے گل نوخیز اختر نے۔۔ لگتا ہے کبھی یہ بھی ننجا ماسٹر کا شکار رہے ہیں۔
خیر خدا جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت۔۔ ہمیں ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہیے۔
کسی کی یوں تضحیک کرنا بالکل مناسب نہیں۔
 

شیزان

لائبریرین
10403232_704487266256194_933888285351781709_n.png
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر یہ بات سچ ہے تو پھر میرا خیال ہے کہ ان کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے، مکافاتِ عمل ہے:
ننجا ماسٹر کو اور حوصلہ ملا اور اب اُس نے سر عام شاعروں ادیبوں کی پگڑیاں اچھالنی شروع کر دیں‘ یہ سلسلہ سرگوشیوں میں لپٹی گالیوں سے شروع ہوااور باآواز بلند غلیظ جملوں میں تبدیل ہوگیا۔ہر ہفتے ٹی ہاؤس میں ننجا ماسٹر کی ایک نئی حرکت دیکھنے کو ملتی‘ کبھی اعلان ہوتا کہ سینئر شعراء کے جنازے نکالے جائیں گے‘ کبھی انہیں ہیجڑوں سے تشبیہ دی جاتی اور کبھی انہیں ہم جنس پرست ثابت کرنے کے لیے مضامین لکھے جاتے ۔وہ مضامین تو آج بھی میرے پاس موجود ہیں جن میں صف اول کے شاعروں ادیبوں کے بارے میں ’’حرام کی اولاد‘‘ تک کے الفاظ لکھے گئے
 
Top