رضوان
محفلین
سید انشاء اللہ خان انشاء (1756ء 1817ء)
سید انشاء اللہ خان انشاء میر ماشااللہ خان کے بیٹے تھے۔ جو ایک ماہر طبیب تھے۔ ان کے بزرگ نجف اشرف کے رہنے والے تھے۔ مغلیہ عہد میں ہندوستان تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی رکاب میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کو زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر مرشد آباد چلے گئے۔ جہاں انشاء پیدا ہوئے۔
انشاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل،ریختی ، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اوراردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔یہی نہیں بلکہ انشاء پہلے ہندوستانی ہیں جنہوں نے دریائے لطافت کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پرروشنی ڈالی۔
انشاء نے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس بھی ہوتا ہے۔انشاء کی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ بانکا ہے۔ جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی جس حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نے انہیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز دگر ہے اسے محض انشائیت ہی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں پیش خدمت ہیں۔
سید انشاء اللہ خان انشاء میر ماشااللہ خان کے بیٹے تھے۔ جو ایک ماہر طبیب تھے۔ ان کے بزرگ نجف اشرف کے رہنے والے تھے۔ مغلیہ عہد میں ہندوستان تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی رکاب میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کو زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر مرشد آباد چلے گئے۔ جہاں انشاء پیدا ہوئے۔
انشاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل،ریختی ، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اوراردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔یہی نہیں بلکہ انشاء پہلے ہندوستانی ہیں جنہوں نے دریائے لطافت کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پرروشنی ڈالی۔
انشاء نے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس بھی ہوتا ہے۔انشاء کی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ بانکا ہے۔ جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی جس حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نے انہیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز دگر ہے اسے محض انشائیت ہی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں پیش خدمت ہیں۔
چھيڑا نہ کرو ميرے قلم دان کے کاغذ
ہيں اس ميں پڑے بندے کے ديوان کے کاغذ
اس طِفل کو بيتوں کا مري شوق ہواتو
محسوس ہوئے سارے گلستان کے کاغذ
ہر وصلي سرکار پہ جدول ہے طلائي
اب آپ لگے رکھنے بڑي شان کے کاغذ
اس شوخ نے کل ٹکڑے زليخا کے کيے اور
مارے سر استاد پہ تان کے کاغذ
دس بيس اکھٹے ہيں خط آس پاس تو قاصد
لے جاکہ يہ ہيں سخت ہي ارمان کے کاغذ
کيا چہرہ انشا کا ہوا رنگ، کل اس کا
يک بار جو قاصد نے ديا آن کے کاغذ
ہيں اس ميں پڑے بندے کے ديوان کے کاغذ
اس طِفل کو بيتوں کا مري شوق ہواتو
محسوس ہوئے سارے گلستان کے کاغذ
ہر وصلي سرکار پہ جدول ہے طلائي
اب آپ لگے رکھنے بڑي شان کے کاغذ
اس شوخ نے کل ٹکڑے زليخا کے کيے اور
مارے سر استاد پہ تان کے کاغذ
دس بيس اکھٹے ہيں خط آس پاس تو قاصد
لے جاکہ يہ ہيں سخت ہي ارمان کے کاغذ
کيا چہرہ انشا کا ہوا رنگ، کل اس کا
يک بار جو قاصد نے ديا آن کے کاغذ