سید شہزاد ناصر
محفلین
اُردو شعرا کی بابت ہی مندرجہ بالا الفاظ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ یہ الفاظ شعراے فارسی کی بابت بھی کہے گئے ہیں۔ لیکن جتنی باتیں بھی اب تک مختلف تذکروں میں یا دیگر مقالہ جات میں نظر سے گزری ہیں، اُن سے واضح نہیں ہوتا کہ اِن الفاظ کے درمیان حدّ ِ فاصل کیا ہے۔ چند اُردو شعرا ضرور ایسے گزرے ہیں جنھوں نے لکھا ’’ماخوذ‘‘۔ یعنی جن خیالات کا اِظہار اشعار میں کیاگیا ہے وہ کسی اور شاعر کی فکر سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اقبالؔ نے واضح طور پر ’’ماخوذ‘‘ لکھا ہے۔
میں جس حد تک بھی سمجھ سکا ہوں، وہ یہ ہے کہ:’’ توارد‘‘ یہ ہے کہ ہم عصر شعرا نے مختلف الفاظ میں ایک ہی خیال کو بیان کردیا ہے۔’’سرقہ‘‘ یہ ہے کہ کسی اور شاعر کے خیال کو چند الفاظ کے فرق کے ساتھ اپنے نام سے بیان کردیا۔ ’’استفادہ‘‘: یہ ہے کہ کسی اور شاعر کے خیال کو اپنے الفاظ میں بیان کردیا۔ایک دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی اور کے خیال کو مزید بہتر انداز میں پیش کردیا۔’’ ترجمہ ‘‘، یہ کہ کسی دوسری زبان کے اشعار کو اپنی زبان میں بیان کردیا۔
مسئلہ بہر حال ابھی تک تو ناقابل حل ہے کہ ان الفاظ کو کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے۔مرزا یاسؔ یگانہؔ چنگیزی مرحوم نے ’’غالب شکن‘‘ میں جو کچھ بھی لکھا، وہ ایک حد تو درست ہی تھا کہ مرزا غالبؔ نے قدیم اساتذئہ فارسی سے استفادہ کیا اور کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالبؔ نے مزید نکتہ آفرینی کی ہے۔ لیکن غالب ؔ پرستی نے اور مرزا غالبؔ کو ’’ بت‘‘ بنانے والوں نے یگانہؔ چنگیزی کو سمجھا نہیں اور بات کہیں سے کہیں چلی گئی اور بالآخر یگانہؔؔ، غالبؔ دشمن تو خیر مشہور ہی ہوئے لیکن غالب کو بت بناکر پوجنے والوں نے یگانہؔ جیسے منفرد شاعر کو بھلا دیا ۔
حامد حسن قادری مرحوم کا نام اُردو شعر وادب میں ایک بڑا نام ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان الفاظ کو حامد حسن قادری مرحوم نے کس طرح استعمال کیا ہے۔ قادری صاحب مرحوم و مغفور کے یہ تمام اقتباسات ان کی تالیف ’نوادر منتخبہ شعر و ادب‘‘ سے لیے ہیںجسے اُن کے فرزند ڈاکٹر خالد حسن قادری مرحوم نے ۲۰۰۰ء میں برطانیہ سے شائع کیا تھا :
۱): غالبؔ کا مطلعِ دیوان ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کوئی فارسی والا کہتا ہے:
کاغذی جامہ بپوشید و بدرگہ آمد
زادئہ خاطر تا بدہد داد مرا
۲) توارد یا ترجمہ:[ امیر ؔ کا شعر ہے]:
وہ کہتے ہیں نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
قدم کوئی کہاں رکھے،جدھر دیکھو اُدھر دِل ہے
[کسی فارسی گو کا شعر ہے]؛
مرا بکوئے تو رفتن چہ مشکل افتاد است
بہر طرف کہ نظر می کنم دِل افتاد است
(۳): ہم معنی:
[نامعلوم ]
یک قصّہ پیش نیست غم عشق و این عجب
ازہر کسے کہ می شنود،نا مکرّر است
[داغؔ دہلوی]
ہر دِل میں نئے درد سے ہے یاد کسی کی
فریاد سے ملتی نہیں فریاد کسی کی
(۴): توارد
(الف): داغؔ دہلوی
پریشاں وہ اُٹھے خوابِ گراں سے
مری فریاد ہے آہ و فغاں سے
عابد حسن فریدی
اُن کی آنکھوں سے اگر نیند اُڑ گئی
تجھ سے اے آہِ اسالی جائے گی
(ب):داغؔ دہلوی
رُخِ رَوشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
بیخود ؔ دہلوی
جس وقت ٹھہر ا شمع سے آکر مقابلہ
پروانے ہوں گے آپ کے رُخسار کی طرف
(ج):ناسخؔ لکھنوی
قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو کیا ہوا ناسخؔ
تڑپ کے رہ گیا اب اُس کے بال و پر ہی نہیں
جلیلؔ مانک پوری
اُس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لئے
در قفس کا ہو کھُلا ‘طاقتِ پرواز نہ ہو
(د): میر تقی میرؔ
دِل کو دیکھو ہو ‘ دیکھ لو پیارے
نازوانداز سے میں ڈرتا ہوں
جلیلؔ مانک پوری
آپ کو دِل میں دِکھاتا ہوں مگر شرط یہ ہے
تاک میں ناز نہ ہو‘گھات میں انداز نہ ہو
(ہ): شفقؔ
اﷲ رے میرے سوزشِ پنہاں کی گرمیاں
گردن کا طوق ‘پاؤں کی زنجیر لال ہے
امیرؔ مینائی
اﷲ رے گرمیاں ترے وحشی کی اے پری
زنجیر پاؤں میں جو پڑی لال ہوگئی
(و): شفقؔ
جب سے کسی نوکِ مژہ کا خیال ہے
نشتر ہے‘تیر ہے‘مرے تن پر جو بال ہے
ذوقؔ
جب سے دِل میں ہے کسی کی نوکِ مژگاں کا خیال ہے
نشترِ زنبور ہے تن پر جو میرے بال ہے
(ز): شفقؔ
اُس چشمِ سُرمہ سا کا جو دِل میں خیال ہے
آواز بھی گلے سے نکلنا محال ہے
امیرؔ مینائی
امیرؔ پہروں رہی خموشی گلے سے آواز تک نہ نکلی
خیال آکر جو خواب میں بھی بندھا کسی چشمِ سُرمگیں گا
(۵): توارد ۔ قائمؔ چاندپوری
کیوں نہ روؤں میں دیکھ خندئہ گُل
کہ ہنسے تھا وہ بے وفا بھی یونہیں
مرزا سوداؔ
مجھے خندئہ گُل پہ آتا ہے رونا
کہ اِس طرح ہنسنے کی خو تھی کسو کی
(۶): استفادہ :
(الف) : غالبؔ
تیرے وعدے پہ جیے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟
فانیؔ بدایونی
نہیں یہ مُردن دوشوار بے سبب، یعنی
یقین مژدئہ پیغام بر نہیں ہے مجھے
(ب): غالبؔ
ہنگامئہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو
عزیزؔ
ہو استفادہ ہے یہی ہستی کا اقتضا
حاصل جہاں سے کیجئے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو
(۷): توارد یا سرقہ ؟
مرزا غالبؔ کا مشہور مطلع ہے:
ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
غالبؔ ہی کے ہم عصر صاحب زادہ نثار علی رام پوری (ولادت ۱۲۴۸ھ) کہتے ہیں:
مجھ سے کہتے ہیں وہ کہ تو کیا ہے
کوئی پوچھے یہ گفتگو کیا ہے
غالبؔ کی ولادت ۱۲۱۴ھ کی ہے۔ نثارؔ ، غالبؔ سے چھوٹے ہیں۔ معلوم نہیں غالبؔ نے اپنی غزل کس زمانے میں کہی ہے اور نثارؔ نے کب۔ غزل کی اِس زمین میں یہ مضمون بلا شبہ توارد ہوسکتا ہے۔ بہر حال نثارؔ کا شعر بہتر ہے۔ ’’یہ اندازِگفتگو‘‘ کے مقابلے میں صرف ’’یہ گفتگو‘‘ اچھا معلوم ہوتا ہے۔
حامد حسن قادری مرحوم نے جو کچھ لکھا ،وہ میں نے اوپر حرف بحرف نقل کیا ہے۔ [] کے درمیان کے الفاظ میرے ہیں۔ ایک جگہ قادری ؔ صاحب نے سنہ لکھے ہیں جیسے کہ مرزا کی ولادت کی بابت لکھا تھا کہ وہ ۱۴۱۴ ھ تھا۔ اُسے میں نے ۱۲۱۴ھ کر دیا ہے ، اِس لیے کہ اُن کا لکھا ہوا سالِ ولادت غلط در غلط ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ مرزا غالبؔ نے کہا :
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عُذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا؟
لیکن عرفیؔ جو مرزا غالبؔ سے کئی صدیوں پیشتر گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
منم آں سیر زجاں گشتہ کہ با تیغ و کفن
تا درِ خانئہ جلّاد غزل خواں رفتم
توارد تو ہے نہیں، ترجمہ بھی نہیں ہے۔ استفادہ کہیں گے یا سرقہ؟ میں نہ تو مرزا یاس یگانہؔ چنگیزی ہوں کہ کہوں مرزا غالب ‘اُن کے چچا تھے اور وہ مرزا غالبؔ کے چچا ، اور نہ ہی میں مرزا غالبؔ کو ’’بت‘‘ بنا کر پوجنے والوں میں ہوں جیسا کہ عبدالرحمان بجنوری نے کیا کہ کہہ گئے کہ ’’برعظیم ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں اُتریں، ایک ’’وید‘‘ اور دوسرے ’’دیوانِ غالبؔ‘‘۔ میں تمام اہل علم و قلم سے درخواست گزار ہوں کہ یہ بتائیں کہ مرزا غالبؔ کا درج بالا شعر ’’استفادہ‘‘ ہے یا ’’سرقہ‘‘۔ ؟
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/52622
میں جس حد تک بھی سمجھ سکا ہوں، وہ یہ ہے کہ:’’ توارد‘‘ یہ ہے کہ ہم عصر شعرا نے مختلف الفاظ میں ایک ہی خیال کو بیان کردیا ہے۔’’سرقہ‘‘ یہ ہے کہ کسی اور شاعر کے خیال کو چند الفاظ کے فرق کے ساتھ اپنے نام سے بیان کردیا۔ ’’استفادہ‘‘: یہ ہے کہ کسی اور شاعر کے خیال کو اپنے الفاظ میں بیان کردیا۔ایک دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی اور کے خیال کو مزید بہتر انداز میں پیش کردیا۔’’ ترجمہ ‘‘، یہ کہ کسی دوسری زبان کے اشعار کو اپنی زبان میں بیان کردیا۔
مسئلہ بہر حال ابھی تک تو ناقابل حل ہے کہ ان الفاظ کو کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے۔مرزا یاسؔ یگانہؔ چنگیزی مرحوم نے ’’غالب شکن‘‘ میں جو کچھ بھی لکھا، وہ ایک حد تو درست ہی تھا کہ مرزا غالبؔ نے قدیم اساتذئہ فارسی سے استفادہ کیا اور کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالبؔ نے مزید نکتہ آفرینی کی ہے۔ لیکن غالب ؔ پرستی نے اور مرزا غالبؔ کو ’’ بت‘‘ بنانے والوں نے یگانہؔ چنگیزی کو سمجھا نہیں اور بات کہیں سے کہیں چلی گئی اور بالآخر یگانہؔؔ، غالبؔ دشمن تو خیر مشہور ہی ہوئے لیکن غالب کو بت بناکر پوجنے والوں نے یگانہؔ جیسے منفرد شاعر کو بھلا دیا ۔
حامد حسن قادری مرحوم کا نام اُردو شعر وادب میں ایک بڑا نام ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان الفاظ کو حامد حسن قادری مرحوم نے کس طرح استعمال کیا ہے۔ قادری صاحب مرحوم و مغفور کے یہ تمام اقتباسات ان کی تالیف ’نوادر منتخبہ شعر و ادب‘‘ سے لیے ہیںجسے اُن کے فرزند ڈاکٹر خالد حسن قادری مرحوم نے ۲۰۰۰ء میں برطانیہ سے شائع کیا تھا :
۱): غالبؔ کا مطلعِ دیوان ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کوئی فارسی والا کہتا ہے:
کاغذی جامہ بپوشید و بدرگہ آمد
زادئہ خاطر تا بدہد داد مرا
۲) توارد یا ترجمہ:[ امیر ؔ کا شعر ہے]:
وہ کہتے ہیں نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
قدم کوئی کہاں رکھے،جدھر دیکھو اُدھر دِل ہے
[کسی فارسی گو کا شعر ہے]؛
مرا بکوئے تو رفتن چہ مشکل افتاد است
بہر طرف کہ نظر می کنم دِل افتاد است
(۳): ہم معنی:
[نامعلوم ]
یک قصّہ پیش نیست غم عشق و این عجب
ازہر کسے کہ می شنود،نا مکرّر است
[داغؔ دہلوی]
ہر دِل میں نئے درد سے ہے یاد کسی کی
فریاد سے ملتی نہیں فریاد کسی کی
(۴): توارد
(الف): داغؔ دہلوی
پریشاں وہ اُٹھے خوابِ گراں سے
مری فریاد ہے آہ و فغاں سے
عابد حسن فریدی
اُن کی آنکھوں سے اگر نیند اُڑ گئی
تجھ سے اے آہِ اسالی جائے گی
(ب):داغؔ دہلوی
رُخِ رَوشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
بیخود ؔ دہلوی
جس وقت ٹھہر ا شمع سے آکر مقابلہ
پروانے ہوں گے آپ کے رُخسار کی طرف
(ج):ناسخؔ لکھنوی
قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو کیا ہوا ناسخؔ
تڑپ کے رہ گیا اب اُس کے بال و پر ہی نہیں
جلیلؔ مانک پوری
اُس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لئے
در قفس کا ہو کھُلا ‘طاقتِ پرواز نہ ہو
(د): میر تقی میرؔ
دِل کو دیکھو ہو ‘ دیکھ لو پیارے
نازوانداز سے میں ڈرتا ہوں
جلیلؔ مانک پوری
آپ کو دِل میں دِکھاتا ہوں مگر شرط یہ ہے
تاک میں ناز نہ ہو‘گھات میں انداز نہ ہو
(ہ): شفقؔ
اﷲ رے میرے سوزشِ پنہاں کی گرمیاں
گردن کا طوق ‘پاؤں کی زنجیر لال ہے
امیرؔ مینائی
اﷲ رے گرمیاں ترے وحشی کی اے پری
زنجیر پاؤں میں جو پڑی لال ہوگئی
(و): شفقؔ
جب سے کسی نوکِ مژہ کا خیال ہے
نشتر ہے‘تیر ہے‘مرے تن پر جو بال ہے
ذوقؔ
جب سے دِل میں ہے کسی کی نوکِ مژگاں کا خیال ہے
نشترِ زنبور ہے تن پر جو میرے بال ہے
(ز): شفقؔ
اُس چشمِ سُرمہ سا کا جو دِل میں خیال ہے
آواز بھی گلے سے نکلنا محال ہے
امیرؔ مینائی
امیرؔ پہروں رہی خموشی گلے سے آواز تک نہ نکلی
خیال آکر جو خواب میں بھی بندھا کسی چشمِ سُرمگیں گا
(۵): توارد ۔ قائمؔ چاندپوری
کیوں نہ روؤں میں دیکھ خندئہ گُل
کہ ہنسے تھا وہ بے وفا بھی یونہیں
مرزا سوداؔ
مجھے خندئہ گُل پہ آتا ہے رونا
کہ اِس طرح ہنسنے کی خو تھی کسو کی
(۶): استفادہ :
(الف) : غالبؔ
تیرے وعدے پہ جیے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟
فانیؔ بدایونی
نہیں یہ مُردن دوشوار بے سبب، یعنی
یقین مژدئہ پیغام بر نہیں ہے مجھے
(ب): غالبؔ
ہنگامئہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو
عزیزؔ
ہو استفادہ ہے یہی ہستی کا اقتضا
حاصل جہاں سے کیجئے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو
(۷): توارد یا سرقہ ؟
مرزا غالبؔ کا مشہور مطلع ہے:
ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
غالبؔ ہی کے ہم عصر صاحب زادہ نثار علی رام پوری (ولادت ۱۲۴۸ھ) کہتے ہیں:
مجھ سے کہتے ہیں وہ کہ تو کیا ہے
کوئی پوچھے یہ گفتگو کیا ہے
غالبؔ کی ولادت ۱۲۱۴ھ کی ہے۔ نثارؔ ، غالبؔ سے چھوٹے ہیں۔ معلوم نہیں غالبؔ نے اپنی غزل کس زمانے میں کہی ہے اور نثارؔ نے کب۔ غزل کی اِس زمین میں یہ مضمون بلا شبہ توارد ہوسکتا ہے۔ بہر حال نثارؔ کا شعر بہتر ہے۔ ’’یہ اندازِگفتگو‘‘ کے مقابلے میں صرف ’’یہ گفتگو‘‘ اچھا معلوم ہوتا ہے۔
حامد حسن قادری مرحوم نے جو کچھ لکھا ،وہ میں نے اوپر حرف بحرف نقل کیا ہے۔ [] کے درمیان کے الفاظ میرے ہیں۔ ایک جگہ قادری ؔ صاحب نے سنہ لکھے ہیں جیسے کہ مرزا کی ولادت کی بابت لکھا تھا کہ وہ ۱۴۱۴ ھ تھا۔ اُسے میں نے ۱۲۱۴ھ کر دیا ہے ، اِس لیے کہ اُن کا لکھا ہوا سالِ ولادت غلط در غلط ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ مرزا غالبؔ نے کہا :
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عُذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا؟
لیکن عرفیؔ جو مرزا غالبؔ سے کئی صدیوں پیشتر گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
منم آں سیر زجاں گشتہ کہ با تیغ و کفن
تا درِ خانئہ جلّاد غزل خواں رفتم
توارد تو ہے نہیں، ترجمہ بھی نہیں ہے۔ استفادہ کہیں گے یا سرقہ؟ میں نہ تو مرزا یاس یگانہؔ چنگیزی ہوں کہ کہوں مرزا غالب ‘اُن کے چچا تھے اور وہ مرزا غالبؔ کے چچا ، اور نہ ہی میں مرزا غالبؔ کو ’’بت‘‘ بنا کر پوجنے والوں میں ہوں جیسا کہ عبدالرحمان بجنوری نے کیا کہ کہہ گئے کہ ’’برعظیم ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں اُتریں، ایک ’’وید‘‘ اور دوسرے ’’دیوانِ غالبؔ‘‘۔ میں تمام اہل علم و قلم سے درخواست گزار ہوں کہ یہ بتائیں کہ مرزا غالبؔ کا درج بالا شعر ’’استفادہ‘‘ ہے یا ’’سرقہ‘‘۔ ؟
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/52622