نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا معطلی پر فیصلہ کل سنایا جائے گا

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا معطلی پر فیصلہ کل سنایا جائے گا
190271_8884992_updates.jpg

آپ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ کا نوازشریف سے بڑا تعلق رہا اور نواز شریف کی تحریک میں آپ کا بڑا حصہ رہا، پراسیکیوٹر نیب کا جسٹس اطہرمن اللہ سے مکالمہ. فوٹو: فائل
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو کل فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے'۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ اس کیس کو اتنے مختصر وقت میں تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اس مرحلے پر عدالت کا کوئی بھی تبصرہ مناسب نہیں ہوگا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت اچھی بات کہی آپ نے۔
جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے، نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، لندن اپارٹمنٹس کا قبضہ بچوں کے پاس تھا، باپ بچوں کا نیچرل سرپرست ہے جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا والد اور سرپرست ہونے کی وجہ سے بار ثبوت ان پر ہے اور یہ کہتے ہیں حسن اور حسین ہی بتا سکتے ہیں، اخراجات ریکارڈر پر نہیں ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیاء نے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'بوگس ٹرسٹ ڈیڈز بنائی گئیں جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ 'کیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز وہاں پر رجسٹرڈ ہوئیں؟' اکرم قریشی نے جواب دیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز صرف بھائیوں کو بتانے کی حد تک تھیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا بھائی بھی تو نواز شریف کے بیٹے ہیں جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا 'آپ نے فرد جرم یہ عائد کی کہ یہ جائیداد نواز شریف کی ہے، آپ کی فرد جرم یہ نہیں ہے کہ مریم نواز مالک ہے'۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا 'کیا اب مفروضے پر فوجداری قانون میں سزا سنا دیں؟، یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے۔
اگر جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی، جسٹس میاں گل حسن
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا 'دو طرح کی ملکیت ایک ہی وقت میں کیسے ہوسکتی ہے، یا وہ ظاہری مالک ہیں یا حقیقی مالک ہیں' جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مریم نواز نے معاونت کی ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا ' اگر جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا جسٹس میاں گل حسن کا سوال یہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی فرد جرم میں تو سزا نہیں ہوسکتی، نواز شریف اور مریم نواز کو ایک ہی فرد جرم میں سزا کیسے سنا دی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا 'بیٹی کو سیکشن 5 کے تحت سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی، کیا مریم کے اثاثے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'جی ہاں'۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میری اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے، دو گھنٹے سے زائد کھڑا نہیں ہوسکتا، سماعت کل تک ملتوی کردیں، کل عدالت کی معاونت کردوں گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ ایک گھنٹے میں دلائل دے دیں گے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا میں کل صرف 30 منٹ لوں گا جس پر جسٹس گل حسن نے کہا ہم آپ کو بیٹھنے کے لیے کرسی دے دیتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کرسی پر بیٹھے رہنے سے پاؤں پھر بھی وزن پڑتا ہے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم پہلے ہی وقت ضائع کر چکے ہیں تاہم بیماری پر اعتراض نہیں کرسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ انتہائی اہم کیس ہے، آج ختم کردیتے تو اچھا ہوتا، اس کیس کے لیے ہم پورا دن لیتے ہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر چیز کی حد ہوتی ہے، آپ نے تحریری دلائل دے دیے ہیں، کل اگر آپ نہ بھی آئے تو ہم ان دلائل کی بنیاد پر فیصلہ سنادیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا 'آپ نے بہت اچھے دلائل دے دیے ہیں، اگر آپ نہ بھی ہوئے تو جہانزیب بھروانہ دلائل دیں گے اور کل دلائل مکمل نہ ہوئے تو پھر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

نیب پراسیکیوٹر کا بینچ پر اعتراض
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے سوال اٹھایا کہ نیب کے کیسز میں صرف ہارڈشپ کی صورت میں ضمانت ہوسکتی ہے جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ ہارڈشپ کا کیس ہے یا نہیں ہے، اس سماعت کے دوران شواہد کو نہیں دیکھ رہے، احتساب عدالت کے فیصلے کی حد تک سوالات پوچھے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر نیب کو کہا کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں اور میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے جسٹس اطہر من اللہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا 'آپ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ کا نوازشریف سے بڑا تعلق رہا اور سابق وزیراعظم کی تحریک میں آپ کا بڑا حصہ رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ قانون کی بالادستی کی تحریک تھی، میری ججمنٹس دیکھ لیں۔
سزا معطلی کی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر پہلے فیصلہ دینے کی نیب کی استدعا مسترد
اکرم قریشی نے نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بنچ پر اعتراض اٹھایا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے شروع میں پوچھا تھا کہ ہم پر اعتماد ہے، لوگ کیا کہتے ہیں ہمیں اس سے تعلق نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے پراسیکیوٹر نیب کو ہدایت کی کہ آپ دلائل دیں جس پر اکرم قریشی نے کہا کہ جناب سے یہ درخواست ہے کہ ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ دیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی استدعا مسترد کردی جس کے بعد اکرم قریشی نے دلائل دینا شروع کیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو کل فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
فیصلہ واٹس ایپ پر موصول ہو چکاہے۔ کل سنا دیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بظاہر سزا معطلی کے امکانات زیادہ ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا 'بیٹی کو سیکشن 5 کے تحت سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی، کیا مریم کے اثاثے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'جی ہاں'۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ریلیف مل سکتا ہے۔ بڑے مجرم نواز شریف کیلئے مشکل ہے کہ ان پر نیب کے سیکشن5 کے تحت سزا ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ آیا تھا۔ مجھے اس وقت کافی حیرت ہوئی تھی کہ مریم نواز کو نواز شریف کے جرم میں "معاونت" کی سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ جس وقت بچوں کے نام یہ فلیٹ خریدے گئے اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔ مریم بی بی اور کیپٹن صفدر پر اعلیٰ عدالت میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرانے کی سزا بنتی تھی۔ اس غلط فیصلہ کا فائدہ ان کے وکلا نے اٹھا لیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوازشریف نے اپنی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس اپیل کے دائر کرنے سے پہلے کچھ باریک کاریگریاں بھی دکھا دی گئیں تاکہ مرضی کے نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ اس مقصد کیلئے جسٹس اطہر من اللہ پر بہت عرصے سے کام جاری تھا، سب جانتے ہیں کہ وہ عدلیہ تحریک میں افتخار چوہدری کا سپوکس پرسن ہوا کرتا تھا اور براہ راست ن لیگ سے ہدایات لیا کرتا تھا۔ اس کی انہی خدمات کے پیش نظر افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد اسے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج بھی بنا دیا۔
نوازشریف کی اپیل کی سماعت کے دوران اطہرمن اللہ کی اب تک جاری کی گئی آبزرویشنز کو سن کر لگتا ہے کہ موصوف نہ تو آئین سے واقف ہیں اور نہ ہی نیب آرڈیننس سے۔ کیونکہ اگر آرڈیننس پڑھا ہوتا تو کبھی مریم نواز کے غیرمتعلقہ ہونے کی آبزرویشن نہ دیتا۔ نیب کے جس آرٹیکل کے تحت نوازشریف فیملی کو سزا ہوئی، اس میں واضح لکھا ہے کہ اس کا اطلاق حکومتی عہدیدار اور اس کے رشتے دار، دونوں پر ہوتا ہے۔ مریم نواز کا نام پانامہ میں آچکا، برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت نے سرکاری طور پر تصدیق کردی کہ وہ نیلسن اور نیسکول نامی آفشور کمپنیوں کی مالک ہے، مریم نواز خود اپنے آپ کو ان کمپنیوں کی ٹرسٹی ظاہر کرچکی، صرف تاریخ کا جھگڑا تھا، جس کیلئے اسے پرانی تاریخوں میں کیلیبری فونٹ میں جعلی ٹرسٹ ڈیل بنانا پڑی۔ نتیجے کے طور پر اسے جعل سازی اور کرپشن کے جرم میں سزا ہوگئی۔
یاد رہے کہ الزام عائد ہونے کے بعد جے آئی ٹی نے ثبوت اکٹھے کرکے نوازشریف اور اس کے اہل خانہ پر چارج شیٹ عائد کی تھی۔ اب بارثبوت نوازشریف پر تھا کہ وہ بتاتا کہ اس نے لندن فلیٹس کیسے خریدے؟
ڈھائی سال ہونے کو آئے، اب تک نوازشریف یہ نہیں بتا سکا کہ دبئی، جدہ اور لندن میں فیکٹریاں اور جائیدادیں بنانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ کس چینل سے ٹرانسفر ہوا؟ کسی ایک ٹرانزیکشن کی کوئی ایک رسید بھی پیش نہ کرسکا ۔ ۔ ۔ نیب کا آرڈیننس جامع ہے، اس کے مطابق نوازشریف کو سزا ہوئی، اطہر من اللہ صرف آبزرویشنز جاری کرکے فضا بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ لفافہ صحافیوں کو پراپیگنڈہ کیلئے ریفرینس مل سکے۔
اب آجائیں اپیل کے متوقع فیصلے پر۔
میری اپنی اطلاعات کے مطابق اطہر من اللہ کی نوازشریف کے ساتھ سیٹنگ ہوچکی، لیکن دوسرا جج میاں گل حسن اورنگزیب ابھی تک قابو نہیں آسکا۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکنی ججوں پر مشتمل یہ پینل سپلٹ فیصلہ جاری کردے، یعنی اطہر من اللہ نوازشریف کی سزا منسوخ کردے لیکن گل حسن اورنگزیب یہ سزا برقرار رکھے۔
اس صورت میں معاملہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے پاس جائے گا جو کہ ایک تیسرا جج تعینات کرکے فیصلہ لے گا۔ نوازشریف کا مستقبل اس تیسرے جج کی تعیناتی کے ساتھ جڑا ہے۔ پرانے پلان کے مطابق یہ تیسرا جج شوکت صدیقی ہونا تھا، لیکن شوکت صدیقی کو اس کی اپنی کرپشن اور بیوقوفی لے ڈوبی، اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئی ایس آئی پر بغیر کسی ثبوت کے سنگین الزامات عائد کردیئے تھے چنانچہ اب وہ خود کاروائی کی زد میں ہے ۔ ۔ ۔
!!! بقلم خود باباکوڈا
 

محمد وارث

لائبریرین
سزا معطل ہوئی ہے، کالعدم نہیں۔ ضمانت پر رہائی کا مطلب ہے نیب عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔ شریف فیملی کو صرف کیس کے حتمی فیصلہ آنے تک جیل سے ریلیف دیا گیا ہے۔
رہا ہی سمجھیں۔ پاکستانی سرکار کا سعودی شاہان کا دیدار، نوٹوں کا بیوپار اور رہائی کا تیوہار بے سبب و بے وجہ نہیں ہے!
 

الف نظامی

لائبریرین
رہا ہی سمجھیں۔ پاکستانی سرکار کا سعودی شاہان کا دیدار، نوٹوں کا بیوپار اور رہائی کا تیوہار بے سبب و بے وجہ نہیں ہے!
پہلے تو اس جملے کی ساخت پر داد وصول کیجیے۔
دوسری بات یہ کہ سنا ہے ڈیم بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
 
Top