نواز شریف حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی ختم کرنا چاہتے ہیں، عمران خان

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی ختم کرنا چاہتے ہیں، عمران خان
ویب ڈیسک 38 منٹ پہلے
2085344-imran-1601049658-107-640x480.jpg

نوازشریف چاہتے ہیں نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا لیکن نوازشریف کھیل سے باہر ہوچکے ہیں فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف مایوس ہوچکے ہیں، وہ حکومت اور فوج کے درمیان تاریخی ہم آہنگی کو توڑنا چاہتے ہیں، اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت اور فوج کے درمیان لڑائی کرانا ہے، اپوزیشن آج استعفے دیدے تو الیکشن کرادوں گا۔

وزیراعظم عمران خان نے مختلف ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات میں کہا کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، ہمارے کچھ وزیر تجزیہ کار بن کر اون گول کردیتے ہیں، نوازشریف چاہتے ہیں نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا لیکن نوازشریف کھیل سے باہر ہوچکے ہیں۔

نواز شریف کی تقریر بھارت کے بیان کی عکاسی ہے

عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کی اجازت دینا درست فیصلہ تھا کیوں کہ پاکستان میں لوگوں کو اظہار آزادی کا اندازہ نہیں تاہم نواز شریف کی تقریر بھارت کے بیان کی عکاسی ہے، نوازشریف اپنی وطن واپسی کے لیے کچھ بھی کریں گے۔

یوٹرن ہمیشہ ایک مقصد کے لیے ہوتا ہے

وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط بنانا ممکن نہیں، ہرجماعت میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے، میرا وژن پاکستان ہے جس کے ہاتھ میں کشکول نہ ہو، کرپشن پر کسی کو بھی این آر او نہیں دوں گا، یوٹرن ہمیشہ ایک مقصد کے لیے ہوتا ہے، میں نے پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور استعمال کی۔

یہ لوگ فضل الرحمان کو اس لیے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے پاس لوگ نہیں

عمران خان نے کہا کہ ن لیگ ہو یا ش لیگ یہ لوگ صرف خاندانی سیاست کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کو اس لیے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس لوگ نہیں۔

اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت اور فوج کے درمیان لڑائی کرانا ہے

انہوں نے کہا کہ نواز شریف مایوس ہوچکے ہیں، وہ حکومت اور فوج کے درمیان تاریخی ہم آہنگی کو توڑنا چاہتے ہیں، اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت اور فوج کے درمیان لڑائی کرانا ہے، مجھے اپوزیشن کی پاک فوج سے ہونے والی ملاقاتوں کا علم ہوتا ہے۔

ادویات کی قیمتیں بڑھائی ہیں تاکہ ادویات مارکیٹ میں موجود ہوں

وزیراعظم نے بتایا کہ وہ شوگر مافیا سے نمٹ رہے ہیں، ادویات کی قیمتیں بڑھائی ہیں تاکہ ادویات مارکیٹ میں موجود ہوں، 18 ویں ترمیم میں زرعی شعبہ صوبوں کو دے دیا گیا جو کہ نہیں دینا چاہیے تھا، 18 ویں ترمیم نے نظام کو فریکچر کردیا۔

پاکستان خوش قسمت ملک ہے چین ہمارا دوست ملک ہے

عمران خان نے کہا کہ پاکستان خوش قسمت ملک ہے چین ہمارا دوست ملک ہے، اچھی بات یہ ہے کہ چین کو پاکستان کی اتنی ضرورت ہے جتنی پاکستان کو چین کی۔

اپوزیشن آج استعفے دیدے میں الیکشن کرا دوں گا

وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن آج استعفے دیدے میں الیکشن کرا دوں گا، میں کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ کرسکتا ہوں لیکن این آر او نہیں دوں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یوٹرن خان کا قولِ زریں
جمہوری انقلابی شریف کا اعمال زریں ذیل میں پڑھ لیں:
اعلیٰ ظرف اور وضع دار نواب زادہ نصراللہ خان نے اگلی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے متعلق ایک سوال پر برملا اعتراف کیا اور کہا کہ '' بر خوردار میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نواز شریف کو پہچاننے میں غلطی کی ‘میری ساری زندگی سیاسی لوگوں‘ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ گزری اور سیاسی لوگوں سے پالا پڑا اور میں نواز شریف کو بھی سیاستدان سمجھ بیٹھا تھا‘‘۔ پھر نوابزادہ نے نواز شریف کے بارے میں تاریخی جملہ بولا ''لیکن افسوس کہ جس کو میں سیاستدان سمجھ کر اس کی رہائی کے لیے جدوجہد کررہا تھا وہ نواز شریف ایک تاجر نکلا اور ایک ڈکٹیٹر سے اپنا سودا کرکے باہر چلا گیا ‘‘

تاریخ اشاعت 2020-09-25
نواز شریف کی سیاست

آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والی دھواں دھار اور نام نہاد انقلابی تقریروں کی گھن گرج ابھی الیکٹرانک میڈیا پر اپنے بامِ عروج پر تھی‘ مشترکہ اعلامیے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہو پائی تھی‘ انقلابیوں کے ہم خیالوں کا عام تاثر یہی تھا اور یہ بیانیہ بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی جارہی تھی کہ یہ پارلیمانی سیٹ اپ بس اب گرنے کوتیار کھڑا ہے اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان‘سول ہوں یا عسکری‘ سب کو گھر بھیجنے کا روڈ میپ بھی جاری کردیا گیا‘ لیکن عین اس وقت یہ پردہ اٹھ گیا کہ اس کل جماعتی کانفرنس سے چند روز پہلے پسِ چلمن کیا کچھ ہورہا تھا‘ کون کس سے ملاقاتیں کررہا تھا‘ کس کا پیغام کس کو پہنچایا جارہا تھا ۔کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کے سیاسی اور غیر سیاسی ایوانوں میں کیا چل رہا تھا‘ کسی کے علم میں نہیں تھا اور جب اس ناچیز نے پچھلے '' بین السطور‘‘ میں کچھ بیان کیا تونام نہاد انقلابیوں کے فرنٹ مین مغلظات کے ساتھ حملہ آور ہوئے‘ لیکن کوئی بات نہیں ہر قاری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے ‘ہمارے لیے سب قابلِ احترام ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ کہ ہمارے قارئین کرام میں وہ بھی شامل ہیں جو ہماری تحریروں کو پسند نہیں کرتے لیکن پڑھتے بھی ہیں اور اپنی رائے کا بے باکی سے اظہار بھی کرتے ہیں۔ اپنے ناقدین سے یہی عرض ہے کہ میں چونکہ بنیادی طور پرایک رپورٹر ہوں اور ربع صدی سے یہی کام کر رہا ہوں‘ خبروں کا حصول‘ خبروں کی تہہ تک پہنچنا اور ان خبروں اور معلومات کو اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچانا اپنا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے‘ اس لیے جانتا ہوں کہ ایک خبر کبھی بھی سب کو خوش نہیں رکھ سکتی۔ ایک فریق کے لیے خبر اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے بری‘ یہ ایک فطری عمل ہے اس لیے آپ ہم سے ناراض نہ ہوا کریں؛ البتہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سخت سے سخت بات اچھے طریقے سے کی جاسکتی ہے۔'' بین السطور‘‘ میں خبروں کا یہ سلسلہ البتہ جاری رہے گا۔
بات ہورہی تھی آل پارٹیز کانفرنس کی تقریروں اور اعلامیے کی‘ جس میں خاص طور پر نواز شریف کی تقریر ‘ جسے دوستوں نے صحیح سمجھا اور پھر ایک بے بنیاد عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی ‘لیکن جلد ہی ایسی خبروں کی بھرمار ہوگئی اور معلوم ہونے لگا کہ نوازشریف کی تقریر میں اتنی زیادہ نفرت‘ غصے اور اداروں کے خلاف زہر افشانی کی اصل وجہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ماضی میں چلے جائیں تو سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے بدلتے ہوئے خطے کے سکیورٹی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی سے متعلق ایک ادارے کی تشکیل کی تجویز دی‘ تجویز بہت اچھی تھی‘ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اہم قومی سلامتی کے امور اوپن فورم پر سول ملٹری قیادت کے درمیان زیربحث آئیں اور ان ملاقاتوں اور فیصلوں کا ریکارڈ بھی ہو‘ لیکن وزیراعظم نوازشریف نے ان سے استعفیٰ لیا اور جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا‘ پھر انہیں دوسرا عہدہ بھی دے دیا گیا‘ لیکن ان کے ساتھ بھی لڑائی جاری رکھی ‘پھر کیا ہوا سب نے دیکھا۔ پھر تمام اپوزیشن جماعتوں نے اے آرڈی بنائی اور نوابزادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد عروج پرتھی کہ محترمہ کلثوم نواز ان اجلاسوں میں دن میں شرکت کرتی تھیں اور رات کی تاریکیوں میں بھیس بدل کر کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھ کر ریٹائرڈ فوجی افسروں کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کو اپروچ کیا جاتا تھا اور منت ترلا کیا جاتا تھا ۔ ایک روز قبل اے آر ڈی کا اجلاس ہوا‘ نوابزادہ نصراللہ خان نے بھرپور پریس کانفرنس کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا‘محترمہ کلثوم ان فیصلوں میں شریک تھیں‘ لیکن اُسی رات پرویز مشرف سے ڈیل فائنل ہوگئی اور نواز شریف راتوں رات سرور پیلس جدہ میں منتقل ہوگئے۔ واضح رہے کہ سرور پیلس جدہ کی تزئین و آرائش چندہفتے پہلے ہی کی جاچکی تھی۔ اتفاق سے مجھے بھی سرور پیلس جدہ میں میاں نواز شریف سے مسلسل تین برس ملاقات کا موقع میسر آیا ۔ان ملاقاتوں کا احوال پھر کسی دن عرض کروں گا‘ نواز شریف کے جدہ جانے کے بعد اے آرڈی کا اگلا اجلاس ہوا تو اس اجلاس میں جدوجہد کی تحریک جن کے لیے چلائی جانی تھی وہ موجود نہیں تھے‘ باقی سب جماعتیں اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ وہ وہاں بحالیٔ جمہوریت کی بات کررہی تھیں اور دل ہی دل میں یہ کہہ رہی تھیں کہ میاں صاحب سب کو جُل دے کر نکل گئے اور بیگم صاحبہ نے بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔بڑے لوگ ہمیشہ بڑے ہی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ ظرف اور وضع دار نواب زادہ نصراللہ خان نے اگلی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے متعلق ایک سوال پر برملا اعتراف کیا اور کہا کہ '' بر خوردار میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نواز شریف کو پہچاننے میں غلطی کی ‘میری ساری زندگی سیاسی لوگوں‘ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ گزری اور سیاسی لوگوں سے پالا پڑا اور میں نواز شریف کو بھی سیاستدان سمجھ بیٹھا تھا‘‘۔ پھر نوابزادہ نے نواز شریف کے بارے میں تاریخی جملہ بولا ''لیکن افسوس کہ جس کو میں سیاستدان سمجھ کر اس کی رہائی کے لیے جدوجہد کررہا تھا وہ نواز شریف ایک تاجر نکلا اور ایک ڈکٹیٹر سے اپنا سودا کرکے باہر چلا گیا ‘‘۔ نوابزادہ نے ایک آہ بھری اور دل ہی دل میں کہا ہوگا کہ اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لے کر ۔
یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے کا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ آج بھی جب پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ کا اعلان کیا جارہا تھا اور نواز شریف ایک انقلابی تقریر کررہے تھے‘ عین انہی دنوں جب آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخوں کا تعین کیا جارہا تھا اور (ن) لیگ سے اے پی سی کی تاریخ مانگی جارہی تھی اور( ن) لیگ بلکہ شریف فیملی اے پی سی کی تاریخ نہیں دے رہی تھی ‘پس پردہ انہی دنوں شریف فیملی مصالحت کاروں کے ذریعے عسکری قیادت سے ڈیل کی کوشش میں مصروف تھی۔ این آر او مانگا جارہا تھا‘ منت ترلا‘ معافی تلافی‘ ماضی کی غلطیاں معاف کرنے کی استدعا کی جارہی تھی‘ عدالتوں سے ریلیف لے کر دینے کی درخواست کی جارہی تھی‘ لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘ آپ جانیں اور آپ کے مقدمات۔ جب یہ جواب آخری بار سات ستمبر کو مل گیا تو پھر فوری طور پر اے پی سی کی تاریخ بھی دے دی گئی اور انقلابی تقریر بھی کردی گئی۔ لیکن اس بار ماضی سے حالات مختلف ہیں‘ وضع دار نوابزادہ نصر اللہ خان کی جگہ ''ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ لے چکے ہیں اور عسکری قیادت بھی ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے بعد اب مزید ڈسوانے کے لیے تیار نہیں۔ پانامہ سے جو سفر شروع ہوچکا وہ آج تک جاری ہے اور یہ جاری رہے گا ‘بیرونی ممالک کا دباؤ اب بھی ہے‘ لیکن پاکستان بڑا ہوچکا ہے۔ اپنے دوستوں دشمنوں کو پہچانتا ہے۔ شریف فیملی نے ایک بار پھر اے پی سی کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی‘ لیکن جو خبریں اب آچکی ہیں اورجو کچھ پاک فوج کے ترجمان بیان کرچکے ہیں اب منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ یہ تمام خبریں ملاقاتوں کی تفصیل پیپلزپارٹی کو مل چکی‘ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ اے پی سی میں انقلابی تقریر انکار کے بعد دباؤ بڑھانے کے لیے تھی‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آنے والے دنوں میں احتساب کا عمل مزید سخت ہونے جارہا ہے۔ نواز شریف نے جو کردیا شاید اب واپسی نہ ہوسکے۔ گلگت بلتستان کا پانچواں صوبہ بننا بہت ضروری ہے‘ پاکستان کے دشمن پاکستان کو گھیرنا چاہتے ہیں اور شریف فیملی قومی سلامتی کے معاملات میں بھی وہ بیانیہ لے کر آرہی ہے جس سے دشمن تو خوش ہوسکتا ہے لیکن اس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔
 

بابا-جی

محفلین
اقبال سے معذرت کے ساتھ،
تُو جھُکا جب فوج کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
عاصم باجوہ خان کا ٹیسٹ کیس ہے۔ نواز شریف نے کیا ہم آہنگی توڑنی ہے، یہ کمزور بیان ہے۔ خان کو اپنے بے لاگ احتساب کے نعرے پر قائم رہنا چاہیے۔ اقتدار رہے یا نہ رہے۔ صِرف نواز شریف کو نیچا دِکھانے اور اِقتدار سے چمٹے رہنے سے کپتان نے اپنے نمبر گنوائے ہیں۔ خُوشامدی ٹولہ اس پر بھی دھمالیں ڈالے۔ یہ بیان صِرف بوٹاں والی سرکار کو خُوش کرنے کے لیے ہے۔ عِمران کو بعد میں ایسے بیانات سے سیاسی نقصان پہنچے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اقبال سے معذرت کے ساتھ،
تُو جھُکا جب فوج کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
عاصم باجوہ خان کا ٹیسٹ کیس ہے۔ نواز شریف نے کیا ہم آہنگی توڑنی ہے، یہ کمزور بیان ہے۔ خان کو اپنے بے لاگ احتساب کے نعرے پر قائم رہنا چاہیے۔ اقتدار رہے یا نہ رہے۔ صِرف نواز شریف کو نیچا دِکھانے اور اِقتدار سے چمٹے رہنے سے کپتان نے اپنے نمبر گنوائے ہیں۔ خُوشامدی ٹولہ اس پر بھی دھمالیں ڈالے۔ یہ بیان صِرف بوٹاں والی سرکار کو خُوش کرنے کے لیے ہے۔ عِمران کو بعد میں ایسے بیانات سے سیاسی نقصان پہنچے گا۔
عمران خان سیاست کا کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک میں اقتدار کا منبع عوام نہیں فوج ہے۔ اس لئے اپوزیشن میں سے جو کوئی بھی فوجی قیادت سے مل کر اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ موصوف اسے سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کی اجازت دینا عمران خان کا اپنا فیصلہ تھا۔ کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ محمد زبیر کے ساتھ ہونے والی خفیہ ملاقات میں فوجی قیادت نے ان کو کیا جواب دیا ہے۔ ن لیگ کے حامی لفافوں کی جو چیخ و پکار آپ کو نظر آ رہی ہے، اس کا پس منظر بھی یہی ہے کہ ماضی کے برعکس اب ان کے نام نہاد جمہوری انقلابی لیڈروں کے اعمال زریں قوم کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اور ان کو اب کہیں سے ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔

فوج اور سیاست
  • سہیل وڑائچ
  • صحافی و تجزیہ کار
7 گھنٹے قبل
_114601113_mediaitem114601110.jpg

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئین کی کتاب پڑھیں تو اس میں واضح طور پر درج ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر پاکستان کی گذشتہ 60 سالہ تاریخ میں عملی طور پر اس کے برعکس معاملہ رہا ہے جمہوریہ پاکستان میں چار مارشل لاء نافذ ہوئے اور طویل جمہوری جدوجہد کے بعد ان کا خاتمہ ہوا۔

حال ہی میں پارلیمانی لیڈرز کی کانفرنس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں سیاست کو سیاست دانوں نے خود چلانا اور آگے لے کر جانا ہے۔

فوج کی طرف سے دی گئی اس بریفنگ کی تفصیل آل پارٹیز کانفرنس کے بعد سامنے آئی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں باقی تو سب کچھ توقع کے عین مطابق تھا مگر لندن میں مقیم نواز شریف کی تقریر کے مندرجات اور لب و لہجہ غیر متوقع تھا۔

عام خیال یہ تھا کہ بیماری کے دوران میاں نواز شریف کی لندن روانگی کسی پس پردہ ڈیل کی وجہ سے ہوئی تھی اور اس ڈیل کی وجہ سے میاں نوازشریف جارحیت کی بجائے مفاہمت کی طرف مائل ہو چکے ہیں مگر میاں نواز شریف کی ساری تقریر جارحیت اور مزاحمت کے اسی لہجے سے بھرپور تھی جس کا اظہار انھوں نے ’مجھے کیوں نکالا‘ بیانیے کے دوران بار بار کیا تھا۔

میاں نواز شریف کی تقریر اور پھر فوجی بریفنگ کے حوالے سے کچھ مفروضے، سازشی کہانیاں زیر گردش ہیں جنھیں سن کر میاں نواز شریف کی تقریر، فوجی بریفنگ اور گورنر محمد زبیر کی ملاقاتوں کی کہانی کچھ کچھ سمجھ آتی ہے۔

پہلا مفروضہ تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے لہجے میں جارحیت اور تلخی محمد زبیر اور آرمی چیف کی دو ملاقاتوں میں مثبت نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے آئی۔ اس مفروضے کے مطابق نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ موجودہ سیٹ اپ کی اسی طرح حمایت جاری رکھیں گے تو پھر ن لیگ جارحانہ انداز اپنائے گی۔

_114600231__114502436_55ebcbb7-2d0c-46b0-8412-0e88cbb5348f.jpg

،تصویر کا ذریعہPMLN

،تصویر کا کیپشن
بیان جار حانہ تھا مگر اس کی وجہ جذباتی نہیں سوچی سمجھی سکیم ہو گی اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو کہیں سے امید دلائی گئی ہے کہ یہ وقت وار کرنے کا ہے

دوسرا مفروضہ بالکل متضاد ہے مگر ہے وہ بھی دلچسپ۔ اس مفروضہ کہانی کے مطابق نواز شریف کو جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف بلا سوچے سمجھے کوئی تقریر نہیں کرتے اس تقریر سے پہلے انھوں نے ٹھنڈے دل سے اپنی حکمت عملی بنائی ہو گی۔

بیان جار حانہ تھا مگر اس کی وجہ جذباتی نہیں سوچی سمجھی سکیم ہو گی اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو کہیں سے امید دلائی گئی ہے کہ یہ وقت وار کرنے کا ہے کیونکہ اب حکومتی کہانی لمبی چلتی نظر نہیں آرہی اسی ممکنہ اطلاع کی بناء پر ان کی تقریر میں جارحیت اور مزاحمت کا تڑکا تھا۔

تیسرے مفروضے کے تانے بانے عالمی دنیا کی سازشوں سے ملتے ہیں۔ اس مفروضہ کہانی کے مطابق لندن میں نواز شریف ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، وہ بین الاقوامی دنیا کے کئی اہم کرداروں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ اپنے اثرو رسوخ سے موجودہ پاکستانی حکومت کے خلاف لابنگ کر رہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومتی حلقوں کو یقین ہے کہ سعودی عرب اور عمران حکومت کے تعلقات کی خرابی میں جہاں دیگر عناصر کار فرما ہیں وہاں میاں نواز شریف کے حلقہ اثر نے بھی سعودی عرب میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اور عرب سفارتکاروں میں حالیہ دنوں میں کچھ رابطے بھی ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اور امریکہ کے متضاد مفادات کے باوجود جہاں چین کے سی پیک کی پاکستانی رفتار پر تحفظات ہیں وہیں ہم امریکہ کی افغانستان میں مدد کے باوجود ابھی تک ان سے اپنی امداد بحال نہیں کروا سکے۔ گویا چین اور امریکہ دونوں طرف سے کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔

چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ ن لیگ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی جو سیاست کھیلتی آرہی ہے وہ چلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ شہباز شریف گڈ کاپ بن کر مفاہمتی اور مصالحتی سیاست کی بات کرتے آرہے ہیں جبکہ نواز شریف اور مریم اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن لیتے ہوئے جارحانہ اور مزاحمتی سیاست کرتے آرہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے باوجود حمزہ شہباز کی لمبی قید اور شہباز شریف پر ٹی ٹی اور منی لانڈرنگ کے نئے مقدمات نے ان کے موقف کو نقصان پہنچایا ہے اور اب ن لیگ کے پاس جارحانہ بیانیے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا اس لیے یہ بیانیہ اپنا لیا گیا ہے۔

_111387476_gettyimages-1178003568-1.jpg

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن
شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے باوجود حمزہ شہباز کی لمبی قید اور شہباز شریف پر ٹی ٹی اور منی لانڈرنگ کے نئے مقدمات نے ان کے موقف کو نقصان پہنچایا ہے

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی فوجی قیادت سے دو ماہ میں دو ملاقاتیں اور ان میں سیاست، نواز شریف اور مریم نواز شریف کے بارے میں بات چیت کی خبر باہر آنا بھی خلاف معمول معاملہ ہے۔

عام طور پر ایسی ملاقاتیں پس پردہ رہتی ہیں اگر صحافیوں کو علم بھی ہو جائے تو ملاقاتی یہ نہیں بتاتے کہ ملاقات کا موضوع کیا تھا، عام طور پر ایک دوسرے کا بھرم رکھا جاتا ہے اور اداروں کی سیاست کا وقار بھی یہی تقاضا کرتا ہے مگر اس بار یہ سارے اصول اور ضابطے توڑ دیئے گئے جو انتہائی نامناسب طرز عمل ہے۔

ملک میں حکومت اور اپوزیشن، فوج اور اہل سیاست یا سول و فوجیوں کی ملاقات ہونا ملکی مفاد میں ہے اگر باہم روابط نہ ہوں گے میل ملاقات نہ کی ہو تو اس سے فاصلے بڑھتے جائیں گے۔


آل پارٹیز کانفرنس، فوجی بریفنگ اور محمد زبیر کی ملاقاتوں کی خبروں نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو گرم کر دیا ہے۔ توقع تھی کہ سیاسی میدان اکتوبر کے بعد گرم ہو گا اور پھر مارچ میں سینٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں نئی صف بندی کریں گی لیکن نواز شریف کی گرم تقریر نے سیاست میں وقت سے پہلے ہلچل پیدا کر دی ہے۔

اور اس کے نتیجے میں محمد زبیر کی خفیہ ملاقاتیں بھی طشت از بام ہو گئی ہیں اور فوجی بریفنگ کی اندرونی کہانیاں بھی باہر آ گئی ہیں ان ساری سرگرمیوں کے نتیجے میں تلخیاں اور غصہ بڑھ رہا ہے امید کرنی چاہیے کہ عقل غالب آئے گی اور صحیح جمہوری منزل کی طرف جانے کی راہ ہموار ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عاصم سلیم باجوہ سے حساب مانگتی ہے میری جوتی۔ نہیں کرتا میں جنرل صاحب کا احتساب۔ میری مرضی!!!
جنریلوں کا احتساب کرنا بھی نیب اور عدلیہ کا کام ہے۔ جرنیل تو کہہ رہے ہیں کہ آئیں عدالت چلیں لیکن آپ کی بہادر انقلابی اپوزیشن ہی وہاں جانے کیلئے رضا مند نہیں۔ بس دور دور سے عمران خان پر ہوائی فائر کر رہی ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
عمران خان سیاست کا کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک میں اقتدار کا منبع عوام نہیں فوج ہے۔
مُجھے خان سے ایسے بُزدلانہ رویے کی توقع نہیں تھی۔ یہ تو پھر چاپلُوسی کا مُقابلہ ہی ہے کہ ہر صُورت اِقتدار میں رہنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مُجھے خان سے ایسے بُزدلانہ رویے کی توقع نہیں تھی۔ یہ تو پھر چاپلُوسی کا مُقابلہ ہی ہے کہ ہر صُورت اِقتدار میں رہنا ہے۔
بہادر تو پھر ایک سیاست دان ہی تھا جس کا نام تاریخ میں شیخ مجیب کے نام سے امر ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا تو فوج سے کوئی ڈیل شیل کرکے بڑے آرام سے اقتدار سنبھال سکتا تھا۔ مگر اس نے جیل جانا بہتر سمجھا اور اُدھر اُس کا ملک فوجی آپریشن، بغاوت اور بھارت کی مداخلت کے بعد آزاد ہو گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حال ہی میں پارلیمانی لیڈرز کی کانفرنس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں سیاست کو سیاست دانوں نے خود چلانا اور آگے لے کر جانا ہے۔
عام طور پر ایسی ملاقاتیں پس پردہ رہتی ہیں اگر صحافیوں کو علم بھی ہو جائے تو ملاقاتی یہ نہیں بتاتے کہ ملاقات کا موضوع کیا تھا، عام طور پر ایک دوسرے کا بھرم رکھا جاتا ہے اور اداروں کی سیاست کا وقار بھی یہی تقاضا کرتا ہے مگر اس بار یہ سارے اصول اور ضابطے توڑ دیئے گئے جو انتہائی نامناسب طرز عمل ہے۔
ملک میں حکومت اور اپوزیشن، فوج اور اہل سیاست یا سول و فوجیوں کی ملاقات ہونا ملکی مفاد میں ہے اگر باہم روابط نہ ہوں گے میل ملاقات نہ کی ہو تو اس سے فاصلے بڑھتے جائیں گے۔
یہ ن لیگی سینئر لفافہ اپنا لکھا ہوا مضمون بھی دوبارہ نہیں پڑھتا کہ کہیں کھلا تضا د نہ مل جائے :)
 

بابا-جی

محفلین
بہادر تو پھر ایک سیاست دان ہی تھا جس کا نام تاریخ میں شیخ مجیب کے نام سے امر ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا تو فوج سے کوئی ڈیل شیل کرکے بڑے آرام سے اقتدار سنبھال سکتا تھا۔ مگر اس نے جیل جانا بہتر سمجھا اور اُدھر اُس کا ملک فوجی آپریشن، بغاوت اور بھارت کی مداخلت کے بعد آزاد ہو گیا۔
اگر خان نے بھی فوجیوں کی کُرپشن کو تحفظ دینا ہے تو پھر جان لیں کہ کوئی اور بھی دُور تک سامنے نہیں آنا جو انہیں جی جان سے للکارے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر خان نے بھی فوجیوں کی کُرپشن کو تحفظ دینا ہے تو پھر جان لیں کہ کوئی اور بھی دُور تک سامنے نہیں آنا جو انہیں جی جان سے للکارے۔
جیسے بچہ دوڑنے سے قبل کھڑا ہونا اور چلنا سیکھتا ہے۔ ویسے ہی عمران خان فی الحال چھوٹے قومی چوروں کو قانون کے نیچے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی تک تو وہی قابو نہیں آرہے تو بڑے خاکی چوروں کو کیا خاک چیلنج کرے گا؟
تا وقت تحریر ایک قومی چور بیماریوں کے نام پر لندن مفرور ہے۔ دوسرا چھوٹا چور عدالتوں سے تاریخ پہ تاریخ لے کر احتساب کا مذاق اڑا رہا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
جیسے بچہ دوڑنے سے قبل کھڑا ہونا اور چلنا سیکھتا ہے۔ ویسے ہی عمران خان ابھی چھوٹے قومی چوروں کو قانون کے نیچے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی تک تو وہی قابو نہیں آرہے تو بڑے خاکی چوروں کو کیا خاک چیلنج کرے گا؟
فی الحال ایک قومی چور بیماریوں کے نام پر لندن مفرور ہے۔ دوسرا چھوٹا چور عدالتوں سے تاریخ پہ تاریخ لے کر احتساب کا مذاق اڑا رہا ہے۔
اور عِمران کو بس فوجیوں کی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اِستعمال کیا جا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور عِمران کو بس فوجیوں کی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اِستعمال کیا جا رہا ہے۔
کہہ سکتے ہیں۔ عمران خان کو خود بھی ن لیگ اور پی پی کی اعلیٰ قیادت سے انتقام لینا ہے۔ جن کی وجہ سے خان اعظم کو 22 سال تک اقتدار سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر عمران خان کے اقتدار میں اختیارات نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو یہ اپوزیشن والے کیوں دوبارہ اسی بے اختیار اقتدار میں جلد از جلد واپسی کیلئے دن اور رات ایک کر رہے ہیں؟ :)
ان کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ عوام اتنی بیوقوف نہیں رہی کہ ان کی ہر بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لے گی۔ Action speaks louder than words
 

بابا-جی

محفلین
اگر عمران خان کے اقتدار میں اختیارات نام کی کوئی چیز نہیں تو یہ اپوزیشن والے کیوں دوبارہ اسی بے اختیار اقتدار میں جلد از جلد واپسی کیلئے کوشاں ہیں؟ :)
ان کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ عوام اتنی بیوقوف نہیں رہی ہے کہ ان کی ہر بات آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لے گی۔ Action speaks louder than words
یہی فرق ہے قائد میں اور اِن سب میں۔ عِمران باجوہ جونئیر کے خلاف بول پڑتا، اِقتدار جاتا مگر تاریخ میں امر ہو جاتا۔ اور،اِس نام نہاد اقتدار نے جانا تو ہے ہی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی فرق ہے قائد میں اور اِن سب میں۔ عِمران باجوہ جونئیر کے خلاف بول پڑتا، اِقتدار جاتا مگر تاریخ میں امر ہو جاتا۔ اور،اِس نام نہاد اقتدار نے جانا تو ہے ہی۔
جمہوری انقلابی نواز شریف نے جرنیلوں سے بار بار ٹکر لے کر ان کا کیا بگاڑ لیا جو عمران خان پہلی بار میں کر لیتا؟ خان اعظم کو سیاسی شہید بن کر تاریخ میں امر ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ یہ کام 1992 میں ورلڈ کپ جیت کر پہلے ہی کر چکا ہے۔
 
Top