سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 23 دسمبر 2014
کراچی میں ایم کیو ایم کی احتجاجی ریلی میں جو دہشتگردطالبان اور داعش کے پرجوش حامی،اسلام آباد میں لال مسجد کے ناجائزخطیب مولانا عبدالعزیزکے خلاف نکالی گئی تھی اُس میں حیدر عباس رضوی اردو زبان کے ماہرین سے یہ سوال کررہے تھے کہ جس ماں کی گود اجڑجائے یا جس باپ کی بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ جائے اُنکو کیا کہا جائے؟ بے اولاد تو نہیں کہہ سکتے، شاید اردوزبان کے ماہرین کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوگااور وہ ہوگا اُنکی غمزدہ خاموشی، لیکن حیدر عباس رضوی اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثارجب یہ کہتے ہیں کہ طالبان کا مطلب طالب ہے توجناب ایک چیز اپنے دماغوں سے نکال دیں کہ پاکستان تحریک طالبان میں طالبان کا مطلب ہرگز وہ طالب نہیں جسکو علم کی طلب ہو، یہ دہشتگردتو وہ طالب ہیں جنکو انسانی خون کی طلب ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا توپشاور میں سولہ دسمبر کی دہشت گردی میں 132ماوں کی گودیں نہ اجٹرتیں اور 16گھرانوں کے بچے اپنی ماوں یا باپ سے محروم نہ ہوتے۔ 16دسمبر کو پشاور کے اسکول میں جو کچھ ہوا مستقبل کی تاریخ میں صاف صاف لکھا ہوگا کہ ان بچوں کے قاتل یا اُسکے ذمیدار دہشتگرد طالبان کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے ہمدرد جماعت اسلامی اور اُسکی سابقہ قیادت جس میں مرحوم قاضی حسین احمد ، منور حسن اور موجودہ قیادت سراج الحق، دونوں جمیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان، موجودہ وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اورپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی بھی ایک حد تک ذمیدار ہیں، آصف زرداری اور اسفندریار ولی دہشتگرد طالبان کے مخالف ضرور تھے اور ہیں، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اُسکا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا مگر افسوس اپنی پانچ سالہ حکومت میں اسلام آباد یا پشاور میں دہشتگردوں کے خلاف وہ ہلچل پیدا نہ کرسکے جسکی ضرورت تھی، وجہ اسوقت کی دونوں حکمراں پارٹیوں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو کرپشن سے فرصت نہیں تھی۔
پشاور کے آرمی اسکول میں دہشت گردی کا واقعہ انسانی تاریخ کا دوسرا بدترین سانحہ ہے جس میں 132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا گیا، اس سے پہلے کا بدترین سانحہ ستمبر 2004 میں روس میں بیلان اسکول میں ہوا تھا ، جس میں 32دہشت گردوں نے 186 بچوں سمیت 385 یرغمالیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ بیلان اسکول کے تین روز تک محاصرے میں 777بچوںسمیت 1100 افراد کو چیچن دہشت گردوں نے یرغمال بنائے رکھا۔ اُن کا مطالبہ چیچنیا کی آزادی، روس اور اقوام متحدہ کی دستبرداری تھا، جبکہ پشاور میں دہشتگردوں کا مقصد صرف خونریزی تھا۔ دہشتگردی کے اس واقعہ کوآج ایک ہفتہ گذرچکا ہے، ملک بھرمیں تین روز کا سوگ منایا گیا، صرف پشاور میں ہی نہیں ہر جگہ ہر پاکستانی غمزدہ ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے۔ دہشتگردی کے اس بدترین واقعہ میں بچوں کی شہادت نےپورئے ملک کی فضا کو سوگوار کردیاہے۔ کسی نے بھی ہڑتال کا نہیں کہا تھا لیکن پورے پاکستان میں تین دن تقریبا کاروبار بند رہا، خاصکر مرکزی بازار تو مکمل شٹ ڈاون رہے، یہ وہ ہی تاجر برادری ہے جو ہڑتال کی کال دینے والے کو کوستے ہیں، لیکن چترال سے کراچی تک ہر پاکستانی کی طرح ہر تاجر کی آنکھ بھی اپنے 148 پیاروں کی شہادت پر اشکبار ہے، حادثے کے دوسرئے دن دوسرے شعبوں کی طرح کراچی اسٹاک مارکیٹ بھی اس سوگ میں اپنے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے بند کردی گی۔ پورا ملک ابتک سوگوار ہے، دہشتگردی کراچی میں ہو یا پشاور میں دکھ تو سب کا ہے۔تاجروں کا کہنا کہ ملکی تاریخ کے اس بد ترین واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اُنکا مزید کہنا تھا کہ جہاں ماں باپ کی زندگی بھر کی پونجی لٹ جائے وہاں کاروبار کس طرح ممکن ہے۔
پشاور کے اس خونریز واقعہ کے بعد نواز شریف ہنگامی طور پر پشاور پہنچ گئے جبکہ صوبے کی حکمراں جماعت کے سربراہ عمران خان کواپنے گھر بنی گالا سے نکلنے اور پشاور پہنچنے میں چھ گھنٹے سے زیادہ لگے۔ شاید وہ اُس دن جاتے بھی نہیں لیکن چونکہ نواز شریف نے پہل کردی تھی اسلیے عمران خان کےلیے اُس دن سیاسی طور پشاور پہنچنا ضروری تھا۔ اگلے دن یعنی سترہ دسمبر کووزیراعظم نواز شریف کی بلائی ہوئی ہنگامی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ جمعرات کو وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں پشاور میں پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کےمشترکہ اجلاس کے بعد کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی ایک ہفتے میں اپنی تجاویز تیار کرے گی جنھیں منظوری کے لیے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو پیش کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ چوہدی نثار علی خان کی قیادت میں کام کرنے والی اس کمیٹی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹر رحمان ملک، پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر شیریں مزاری اور جمیعت علماِ اسلام (ف) نے اکرم درانی کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار اور سینیٹر بابر غوری کے نام تجویز کیے ہیں جبکہ جماعت اسلامی نے فرید پراچہ کا نام تجویز کیا ہے۔ قومی وطن پارٹی کی جانب سے انیسہ طاہر خیلی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جانب سے سینیٹر سید مشاہد حسین کے نام پیش کیے گئے ہیں۔
اگر آپ غور سے اس ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی کے ممبران اور اُنکی جماعتوں کو دیکھں تو ان میں اکثریت تو دہشتگرد طالبان کے ہمددردوں کی ہے، نواز شریف کے وزیر داخلہ جو اس کمیٹی کے سربراہ ہیں یہ تو وہی چوہدری نثار ہیں جو ایک امریکن ڈرون حملےمیں ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کالعدم تحریک پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے مار ئے جانے پرامریکہ کے خلاف سلطان راہی بنے ہوئےبڑھکے مار رہے تھے۔اتنے بڑئے واقعے کے بعد عمران خان دہشتگردی کی مذمت تو کررہے ہیں لیکن معمول کی طرح طالبان کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔عمران خان طالبان کیلئے اپنے نرم گوشے کے باعث شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے مخالف رہے ہیں ۔21 اپریل 2013 کو ایک انتخابی ریلی میں عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ فاٹا میں طالبان کے خلاف جاری تمام آپریشنز بند کردیں گے۔لہذا ڈاکٹرشریں مزاری اس کمیٹی میں کیا رول ادا کرینگی یہ سب کو پتہ ہے۔ جمیعت علماِ اسلام (ف) کے اکرم درانی اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کے بارئے ہر پاکستانی جانتا ہے اکرم درانی کے قائد مولانا فضل الرحمان تو ہر دہشتگرد کو جو کتے کی موت مرئے شہید کا درجہ دیتے ہیں جبکہ فرید پراچہ تو بذات خود طالبان ہیں ، پھر اُنکے سابق امیرجماعت اسلامی منور حسن تودہشتگرد حکیم اللہ محسود کو شہید اور اپنا بھائی قرار دئے چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پانچ سال میں خود کچھ نہ کرپائے تو اب کمیٹی میں کیا کرلینگے۔ قومی وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کمیٹی میں صرف خانہ پوری کےلیے ہیں جبکہ ایم کیوایم وہ واحد جماعت ہے جو ہمیشہ سے طالبان مخالف رہی ہے لیکن جہاں طالبان کے ہمدردوں کی اکثریت ہو وہاں وہ صرف بول سکتی ہے لیکن اُسکی سنے گا کوئی نہیں۔ لہذا ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی کا قیام طالبان کے حامی وزیراعظم نواز شریف کا قوم کو ایک اور دھوکا ہے۔
اب وزیراعظم نواز شریف فرمارہے ہیں کہ ایک ضرب عضب قبائلی علاقوں میں جاری ہے، دوسرا شہروں میں بیٹھے دہشتگردوں کے خلاف، اب فیصلہ کن جنگ ہوگی، دہشت گردوں اور انہیں پناہ دینے والوں میں کوئی تفریق نہیں ہوگی۔ انسداد دہشتگردی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت پاکستان کے لیے ایک کینسر ہے، ملک کو اب اس کینسر سے نجات دلانے کا وقت آگیا ہے، عوام کو ہرممکن تحفظ اور امن دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ کیا نواز شریف قوم کو یہ بتاینگے کہ گذشتہ اٹھارہ ماہ سے وہ کیوں مذاکرات کے نام پر دہشتگردی اور فرقہ واریت کے اس کینسر کو پھیلنے میں طالبان کی مدد کررہے تھے۔ آپریشن ضرب عضب پندرہ جون کو کراچی ایرپورٹ پر حملے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے خود شروع کی تھی اور اسکا اعلان بھی پہلے فوج کی طرف سے ہی کیا گیا تھا، نواز شریف حکومت کا اُس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ کاش نواز شریف اقتدار میں آنے کے فورا بعد دہشتگردی کےخلاف کارروائی کرتے اور دہشت گردوں کو جو آج پھانسی دئے رہے ہیں ڈیڑھ سال پہلے دیتے تو شاید بہت سارئے دہشتگردی کے واقعات نہ ہوتے۔ نواز شریف صاحب آپ اب کچھ بھی کریں لیکن پشاور کے148لوگوں کی شہادت اور اُن میں سے 132 ماوں کی گودیں اجاڑنے کے آپ بھی ذمیدار ہیں۔
نواز شریف ماوُں کی گودیں اجاڑنے کے ذمیدار
تحریر : سید انور محمود
تحریر : سید انور محمود
کراچی میں ایم کیو ایم کی احتجاجی ریلی میں جو دہشتگردطالبان اور داعش کے پرجوش حامی،اسلام آباد میں لال مسجد کے ناجائزخطیب مولانا عبدالعزیزکے خلاف نکالی گئی تھی اُس میں حیدر عباس رضوی اردو زبان کے ماہرین سے یہ سوال کررہے تھے کہ جس ماں کی گود اجڑجائے یا جس باپ کی بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ جائے اُنکو کیا کہا جائے؟ بے اولاد تو نہیں کہہ سکتے، شاید اردوزبان کے ماہرین کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوگااور وہ ہوگا اُنکی غمزدہ خاموشی، لیکن حیدر عباس رضوی اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثارجب یہ کہتے ہیں کہ طالبان کا مطلب طالب ہے توجناب ایک چیز اپنے دماغوں سے نکال دیں کہ پاکستان تحریک طالبان میں طالبان کا مطلب ہرگز وہ طالب نہیں جسکو علم کی طلب ہو، یہ دہشتگردتو وہ طالب ہیں جنکو انسانی خون کی طلب ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا توپشاور میں سولہ دسمبر کی دہشت گردی میں 132ماوں کی گودیں نہ اجٹرتیں اور 16گھرانوں کے بچے اپنی ماوں یا باپ سے محروم نہ ہوتے۔ 16دسمبر کو پشاور کے اسکول میں جو کچھ ہوا مستقبل کی تاریخ میں صاف صاف لکھا ہوگا کہ ان بچوں کے قاتل یا اُسکے ذمیدار دہشتگرد طالبان کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے ہمدرد جماعت اسلامی اور اُسکی سابقہ قیادت جس میں مرحوم قاضی حسین احمد ، منور حسن اور موجودہ قیادت سراج الحق، دونوں جمیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان، موجودہ وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اورپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی بھی ایک حد تک ذمیدار ہیں، آصف زرداری اور اسفندریار ولی دہشتگرد طالبان کے مخالف ضرور تھے اور ہیں، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اُسکا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا مگر افسوس اپنی پانچ سالہ حکومت میں اسلام آباد یا پشاور میں دہشتگردوں کے خلاف وہ ہلچل پیدا نہ کرسکے جسکی ضرورت تھی، وجہ اسوقت کی دونوں حکمراں پارٹیوں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو کرپشن سے فرصت نہیں تھی۔
پشاور کے آرمی اسکول میں دہشت گردی کا واقعہ انسانی تاریخ کا دوسرا بدترین سانحہ ہے جس میں 132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا گیا، اس سے پہلے کا بدترین سانحہ ستمبر 2004 میں روس میں بیلان اسکول میں ہوا تھا ، جس میں 32دہشت گردوں نے 186 بچوں سمیت 385 یرغمالیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ بیلان اسکول کے تین روز تک محاصرے میں 777بچوںسمیت 1100 افراد کو چیچن دہشت گردوں نے یرغمال بنائے رکھا۔ اُن کا مطالبہ چیچنیا کی آزادی، روس اور اقوام متحدہ کی دستبرداری تھا، جبکہ پشاور میں دہشتگردوں کا مقصد صرف خونریزی تھا۔ دہشتگردی کے اس واقعہ کوآج ایک ہفتہ گذرچکا ہے، ملک بھرمیں تین روز کا سوگ منایا گیا، صرف پشاور میں ہی نہیں ہر جگہ ہر پاکستانی غمزدہ ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے۔ دہشتگردی کے اس بدترین واقعہ میں بچوں کی شہادت نےپورئے ملک کی فضا کو سوگوار کردیاہے۔ کسی نے بھی ہڑتال کا نہیں کہا تھا لیکن پورے پاکستان میں تین دن تقریبا کاروبار بند رہا، خاصکر مرکزی بازار تو مکمل شٹ ڈاون رہے، یہ وہ ہی تاجر برادری ہے جو ہڑتال کی کال دینے والے کو کوستے ہیں، لیکن چترال سے کراچی تک ہر پاکستانی کی طرح ہر تاجر کی آنکھ بھی اپنے 148 پیاروں کی شہادت پر اشکبار ہے، حادثے کے دوسرئے دن دوسرے شعبوں کی طرح کراچی اسٹاک مارکیٹ بھی اس سوگ میں اپنے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے بند کردی گی۔ پورا ملک ابتک سوگوار ہے، دہشتگردی کراچی میں ہو یا پشاور میں دکھ تو سب کا ہے۔تاجروں کا کہنا کہ ملکی تاریخ کے اس بد ترین واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اُنکا مزید کہنا تھا کہ جہاں ماں باپ کی زندگی بھر کی پونجی لٹ جائے وہاں کاروبار کس طرح ممکن ہے۔
پشاور کے اس خونریز واقعہ کے بعد نواز شریف ہنگامی طور پر پشاور پہنچ گئے جبکہ صوبے کی حکمراں جماعت کے سربراہ عمران خان کواپنے گھر بنی گالا سے نکلنے اور پشاور پہنچنے میں چھ گھنٹے سے زیادہ لگے۔ شاید وہ اُس دن جاتے بھی نہیں لیکن چونکہ نواز شریف نے پہل کردی تھی اسلیے عمران خان کےلیے اُس دن سیاسی طور پشاور پہنچنا ضروری تھا۔ اگلے دن یعنی سترہ دسمبر کووزیراعظم نواز شریف کی بلائی ہوئی ہنگامی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ جمعرات کو وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں پشاور میں پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کےمشترکہ اجلاس کے بعد کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی ایک ہفتے میں اپنی تجاویز تیار کرے گی جنھیں منظوری کے لیے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو پیش کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ چوہدی نثار علی خان کی قیادت میں کام کرنے والی اس کمیٹی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹر رحمان ملک، پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر شیریں مزاری اور جمیعت علماِ اسلام (ف) نے اکرم درانی کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار اور سینیٹر بابر غوری کے نام تجویز کیے ہیں جبکہ جماعت اسلامی نے فرید پراچہ کا نام تجویز کیا ہے۔ قومی وطن پارٹی کی جانب سے انیسہ طاہر خیلی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جانب سے سینیٹر سید مشاہد حسین کے نام پیش کیے گئے ہیں۔
اگر آپ غور سے اس ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی کے ممبران اور اُنکی جماعتوں کو دیکھں تو ان میں اکثریت تو دہشتگرد طالبان کے ہمددردوں کی ہے، نواز شریف کے وزیر داخلہ جو اس کمیٹی کے سربراہ ہیں یہ تو وہی چوہدری نثار ہیں جو ایک امریکن ڈرون حملےمیں ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کالعدم تحریک پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے مار ئے جانے پرامریکہ کے خلاف سلطان راہی بنے ہوئےبڑھکے مار رہے تھے۔اتنے بڑئے واقعے کے بعد عمران خان دہشتگردی کی مذمت تو کررہے ہیں لیکن معمول کی طرح طالبان کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔عمران خان طالبان کیلئے اپنے نرم گوشے کے باعث شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے مخالف رہے ہیں ۔21 اپریل 2013 کو ایک انتخابی ریلی میں عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ فاٹا میں طالبان کے خلاف جاری تمام آپریشنز بند کردیں گے۔لہذا ڈاکٹرشریں مزاری اس کمیٹی میں کیا رول ادا کرینگی یہ سب کو پتہ ہے۔ جمیعت علماِ اسلام (ف) کے اکرم درانی اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کے بارئے ہر پاکستانی جانتا ہے اکرم درانی کے قائد مولانا فضل الرحمان تو ہر دہشتگرد کو جو کتے کی موت مرئے شہید کا درجہ دیتے ہیں جبکہ فرید پراچہ تو بذات خود طالبان ہیں ، پھر اُنکے سابق امیرجماعت اسلامی منور حسن تودہشتگرد حکیم اللہ محسود کو شہید اور اپنا بھائی قرار دئے چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پانچ سال میں خود کچھ نہ کرپائے تو اب کمیٹی میں کیا کرلینگے۔ قومی وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کمیٹی میں صرف خانہ پوری کےلیے ہیں جبکہ ایم کیوایم وہ واحد جماعت ہے جو ہمیشہ سے طالبان مخالف رہی ہے لیکن جہاں طالبان کے ہمدردوں کی اکثریت ہو وہاں وہ صرف بول سکتی ہے لیکن اُسکی سنے گا کوئی نہیں۔ لہذا ’نیشنل ایکشن پلان‘ کمیٹی کا قیام طالبان کے حامی وزیراعظم نواز شریف کا قوم کو ایک اور دھوکا ہے۔
اب وزیراعظم نواز شریف فرمارہے ہیں کہ ایک ضرب عضب قبائلی علاقوں میں جاری ہے، دوسرا شہروں میں بیٹھے دہشتگردوں کے خلاف، اب فیصلہ کن جنگ ہوگی، دہشت گردوں اور انہیں پناہ دینے والوں میں کوئی تفریق نہیں ہوگی۔ انسداد دہشتگردی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت پاکستان کے لیے ایک کینسر ہے، ملک کو اب اس کینسر سے نجات دلانے کا وقت آگیا ہے، عوام کو ہرممکن تحفظ اور امن دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ کیا نواز شریف قوم کو یہ بتاینگے کہ گذشتہ اٹھارہ ماہ سے وہ کیوں مذاکرات کے نام پر دہشتگردی اور فرقہ واریت کے اس کینسر کو پھیلنے میں طالبان کی مدد کررہے تھے۔ آپریشن ضرب عضب پندرہ جون کو کراچی ایرپورٹ پر حملے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے خود شروع کی تھی اور اسکا اعلان بھی پہلے فوج کی طرف سے ہی کیا گیا تھا، نواز شریف حکومت کا اُس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ کاش نواز شریف اقتدار میں آنے کے فورا بعد دہشتگردی کےخلاف کارروائی کرتے اور دہشت گردوں کو جو آج پھانسی دئے رہے ہیں ڈیڑھ سال پہلے دیتے تو شاید بہت سارئے دہشتگردی کے واقعات نہ ہوتے۔ نواز شریف صاحب آپ اب کچھ بھی کریں لیکن پشاور کے148لوگوں کی شہادت اور اُن میں سے 132 ماوں کی گودیں اجاڑنے کے آپ بھی ذمیدار ہیں۔