سید شاہ زمان شمسی
محفلین
نوجوانوں کی جذباتی تربیت میں والدین کا کردار
تحریر سید شاہ زمان شمسی
صاحب اولاد ہونا اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بھی ہے اور ذمہ داری بھی تربیت یافتہ اولاد ہی سے والدین کا نام زندہ رہتا ہے لیکن اولاد اچھی ہو یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ایک روایت کے مطابق کہ لڑکیاں تو نیکیاں ہیں اور لڑکے نعمات اللہ نیکیوں کا تو اجر عطا فرماتا ہے اور نعمات کے بارے میں باز پرس فرماتا ہے۔
اجر بھی اللہ اس وقت دے گا جب آپ نے لڑکیوں کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہو اور انہیں ایسا بننے کی چھوٹ نہ دی ہو کہ لوگ انگلیاں اٹھائیں۔ اس طرح لڑکوں کے سلسلہ میں تربیت کی کمی کا آپ سے سخت حساب کتاب ہو گا۔ پیغمبر آخر الزماں صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس طرح تمہارا باپ تم پر حق رکھتا ہے، اس طرح تمہاری اولاد بھی تم پر حق رکھتی ہے۔
جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اولاد کے بارے میں والدین کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ " اپنے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق حصول علم کی طرف راغب کرو" وہاں دور حاضر میں یہ دیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ کمسن بچے کی نا جائز و جائز خواہشات کے آگےوالدین سر تسلیم خم کر لیتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اس کی ہر بات مان لیا کرتے ہیں۔ کم عمری میں بچے کی بے جا ضد اسے بد چلن، بد تمیز، اور بد مزاج بنا دیتی ہے وہ چڑ چڑا پن کا شکار ہو جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے نتائج مثبت ملنے کی بجائے منفی برآمد ہوتے ہیں۔
کمسنی میں اللہ تعالی نے بچے کو جس شعور سے نوازا ہوتا ہے وہ اسے استعمال کر کے اور قوت بصارت کے تحت ہر چیز کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے بچے کے سامنے موبائل، لیپ ٹاپ اور الیکٹرونک ڈیوائسز استعمال ضرور کریں لیکن ظاہری بات ہے کہ جب آپ موبائل کو کسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو بچہ اس کے حصول کے لیے ضد کرتا ہے اور آپ اس کے چیخنے چلانے پر موبائل ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔
پھر جا کے اسے سکون ملتا ہے۔ جہاں آج کل کے بچوں کے لیے ایسی چیزیں کھلونا بن چکی ہیں تو وہاں پر آپ کی ذمہ داری ہے کہ اعتدال اور میانہ روی سے بچوں کو ایسی چیزوں کے استعمال کے بارے میں آگہی دیں تا کہ بچہ ٹچ سکرین موبائل سے ہی اپنا رشتہ استوار نہ کر لے بلکہ قرآن پاک کو سیکھنے کی اپنے اندر زیادہ سے زیادہ جستجو پیدا کرے۔ والدین کے اندر جتنی روحانیت ہو گی تو وہ بچوں کی تربیت کے لیے اسی قدر زیادہ روحانی غذا کا اہتمام کرتے رہیں گے۔
اولاد کی جذباتی تربیت میں نفسیات کا بہت گہرا تعلق ہے دین نے نفسیات کو کتنی اہمیت دی ہے وہ حدیث پیغمبر سے ظاہر ہے آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
ترجمہ: " بچہ سات سال کی عمر تک بادشاہ ہے اور سات سال کی عمر سے لے کر چودہ سال کی عمر تک غلام ہے اور چودہ سال کی عمر سے لے کر اکیس سال تک وزیر و مشیر ہے"
کم عمری کا تقاضا ہے کہ اولاد کی باتیں ماننی چاہئیں تا کہ اس کی نشوونما پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ سات سال تک اسے بادشاہ کا درجہ دیا جائے اور اس عمر میں اس کی باتوں کو اس طرح تسلیم کیا جائے جیسے رعایا حکومت وقت کا کہا مانتی ہے۔ نفسیاتی بات ہے کہ ایسا کرنے سے اس میں اپنائیت کا جذبہ مضبوط ہو گا ورنہ وہ لاشعوری طور پر والدین کا شمار اغیار میں کرنے لگے گا۔ اور جب وہ جذبہ مضبوط ہو جائے تو سات سال سے چودہ سال کی عمر تک اس سے اپنی جائز باتیں اس طرح منوانا چاہئیں کہ جس طرح آقا غلام سے باتیں منواتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ اس میں بغاوت پیدا ہو جائے گی۔
لہذا یہ عمر تربیت کا خاص زمانہ ہے زیادہ لاڈ پیار اولاد کو بگاڑ سکتا ہے۔ چودہ سال کی عمر کے بعد رشد و بلوغ کا زمانہ ہے اس زمانے میں والدین اپنی باتیں منوانے کے ساتھ ساتھ اس کی جائز اور مناسب خواہشات پر بھی عمل درآمد کرتے رہیں تا کہ بچے میں خود اعتمادی اور معاملات کو سمجھنے کا ادراک پیدا ہو سکے۔
زمانہ بلوغت میں بچوں کے بدلتے ہوئے رویوں کے ذمہ دار بہت حد تک والدین ہوا کرتے ہیں۔ بے راہ روی کے اس دور میں بچوں کو مکمل طور پہ گہری توجہ اور تربیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس کے بر عکس اس عمر میں والدین کی اولاد سے حد درجہ محبت ان کو ناکارہ و برباد کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہی حد درجہ محبت اولاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور وہ نازک مزاج اور ناز و نخرے کی عادی ہو جاتی ہے۔
جب یہی بچے زمانہ بلوغت طے کرنے کے بعد سماجی زندگی کا حصہ بنتے ہیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملازمت کے حصول کے لیے قدم رکھتے ہیں تو وہاں رکاوٹوں اور مشکلات سے بھرپور حالات پر بھلا کوئی دوسرا اس کی ناز برداری کیوں کرنے لگے گا؟ جب اسے عادت کے بر خلاف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے قدم قدم پر ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ عملی طور پہ سماج سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ لہذا حقیقی محبت یہ ہے کہ آپ اولاد کو دنیا کے سرد و گرم معاملات سے آگاہ کریں
تحریر سید شاہ زمان شمسی
صاحب اولاد ہونا اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بھی ہے اور ذمہ داری بھی تربیت یافتہ اولاد ہی سے والدین کا نام زندہ رہتا ہے لیکن اولاد اچھی ہو یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ایک روایت کے مطابق کہ لڑکیاں تو نیکیاں ہیں اور لڑکے نعمات اللہ نیکیوں کا تو اجر عطا فرماتا ہے اور نعمات کے بارے میں باز پرس فرماتا ہے۔
اجر بھی اللہ اس وقت دے گا جب آپ نے لڑکیوں کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہو اور انہیں ایسا بننے کی چھوٹ نہ دی ہو کہ لوگ انگلیاں اٹھائیں۔ اس طرح لڑکوں کے سلسلہ میں تربیت کی کمی کا آپ سے سخت حساب کتاب ہو گا۔ پیغمبر آخر الزماں صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس طرح تمہارا باپ تم پر حق رکھتا ہے، اس طرح تمہاری اولاد بھی تم پر حق رکھتی ہے۔
جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اولاد کے بارے میں والدین کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ " اپنے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق حصول علم کی طرف راغب کرو" وہاں دور حاضر میں یہ دیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ کمسن بچے کی نا جائز و جائز خواہشات کے آگےوالدین سر تسلیم خم کر لیتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اس کی ہر بات مان لیا کرتے ہیں۔ کم عمری میں بچے کی بے جا ضد اسے بد چلن، بد تمیز، اور بد مزاج بنا دیتی ہے وہ چڑ چڑا پن کا شکار ہو جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے نتائج مثبت ملنے کی بجائے منفی برآمد ہوتے ہیں۔
کمسنی میں اللہ تعالی نے بچے کو جس شعور سے نوازا ہوتا ہے وہ اسے استعمال کر کے اور قوت بصارت کے تحت ہر چیز کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے بچے کے سامنے موبائل، لیپ ٹاپ اور الیکٹرونک ڈیوائسز استعمال ضرور کریں لیکن ظاہری بات ہے کہ جب آپ موبائل کو کسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو بچہ اس کے حصول کے لیے ضد کرتا ہے اور آپ اس کے چیخنے چلانے پر موبائل ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔
پھر جا کے اسے سکون ملتا ہے۔ جہاں آج کل کے بچوں کے لیے ایسی چیزیں کھلونا بن چکی ہیں تو وہاں پر آپ کی ذمہ داری ہے کہ اعتدال اور میانہ روی سے بچوں کو ایسی چیزوں کے استعمال کے بارے میں آگہی دیں تا کہ بچہ ٹچ سکرین موبائل سے ہی اپنا رشتہ استوار نہ کر لے بلکہ قرآن پاک کو سیکھنے کی اپنے اندر زیادہ سے زیادہ جستجو پیدا کرے۔ والدین کے اندر جتنی روحانیت ہو گی تو وہ بچوں کی تربیت کے لیے اسی قدر زیادہ روحانی غذا کا اہتمام کرتے رہیں گے۔
اولاد کی جذباتی تربیت میں نفسیات کا بہت گہرا تعلق ہے دین نے نفسیات کو کتنی اہمیت دی ہے وہ حدیث پیغمبر سے ظاہر ہے آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
ترجمہ: " بچہ سات سال کی عمر تک بادشاہ ہے اور سات سال کی عمر سے لے کر چودہ سال کی عمر تک غلام ہے اور چودہ سال کی عمر سے لے کر اکیس سال تک وزیر و مشیر ہے"
کم عمری کا تقاضا ہے کہ اولاد کی باتیں ماننی چاہئیں تا کہ اس کی نشوونما پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ سات سال تک اسے بادشاہ کا درجہ دیا جائے اور اس عمر میں اس کی باتوں کو اس طرح تسلیم کیا جائے جیسے رعایا حکومت وقت کا کہا مانتی ہے۔ نفسیاتی بات ہے کہ ایسا کرنے سے اس میں اپنائیت کا جذبہ مضبوط ہو گا ورنہ وہ لاشعوری طور پر والدین کا شمار اغیار میں کرنے لگے گا۔ اور جب وہ جذبہ مضبوط ہو جائے تو سات سال سے چودہ سال کی عمر تک اس سے اپنی جائز باتیں اس طرح منوانا چاہئیں کہ جس طرح آقا غلام سے باتیں منواتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ اس میں بغاوت پیدا ہو جائے گی۔
لہذا یہ عمر تربیت کا خاص زمانہ ہے زیادہ لاڈ پیار اولاد کو بگاڑ سکتا ہے۔ چودہ سال کی عمر کے بعد رشد و بلوغ کا زمانہ ہے اس زمانے میں والدین اپنی باتیں منوانے کے ساتھ ساتھ اس کی جائز اور مناسب خواہشات پر بھی عمل درآمد کرتے رہیں تا کہ بچے میں خود اعتمادی اور معاملات کو سمجھنے کا ادراک پیدا ہو سکے۔
زمانہ بلوغت میں بچوں کے بدلتے ہوئے رویوں کے ذمہ دار بہت حد تک والدین ہوا کرتے ہیں۔ بے راہ روی کے اس دور میں بچوں کو مکمل طور پہ گہری توجہ اور تربیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس کے بر عکس اس عمر میں والدین کی اولاد سے حد درجہ محبت ان کو ناکارہ و برباد کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہی حد درجہ محبت اولاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور وہ نازک مزاج اور ناز و نخرے کی عادی ہو جاتی ہے۔
جب یہی بچے زمانہ بلوغت طے کرنے کے بعد سماجی زندگی کا حصہ بنتے ہیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملازمت کے حصول کے لیے قدم رکھتے ہیں تو وہاں رکاوٹوں اور مشکلات سے بھرپور حالات پر بھلا کوئی دوسرا اس کی ناز برداری کیوں کرنے لگے گا؟ جب اسے عادت کے بر خلاف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے قدم قدم پر ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ عملی طور پہ سماج سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ لہذا حقیقی محبت یہ ہے کہ آپ اولاد کو دنیا کے سرد و گرم معاملات سے آگاہ کریں