نوحہ، الوداع الوداع

فاخر رضا

محفلین
رن کو جاتے ہوئے سر جھکائے ہوئے شہ نے رو کر کہا الوداع الوداع الوداع الوداع
آیا وقت سفر اے بہن آج ہم ہورہے ہیں جدا الوداع الوداع الوداع الوداع
شاہ بڑھ کر بہن کے گلے لگ گئے اور دکھیا بہن سے یہ کہنے لگے ہائے کہنے لگے
میری مظلوم پیاسی مسافر بہن تیرا حافظ خدا الوداع الوداع الوداع الوداع
جس سے ڈرتی تھی تم وہ گھڑی آگئی دیکھو چاروں طرف تیرگی چھا گئی تیرگی چھا گئی
دشت پر حول میں شام ہونے کو ہے لو مسافر چلا الوداع الوداع الوداع الوداع
لے کے بالی سکینہ کو آغوش میں ننھے ننھے سے ہاتھوں کے بوسے لئے ہائے بوسے لئے
شہ نے حسرت بیٹی کو تکتے ہوئے آہ بھر کر کہا الوداع الوداع الوداع الوداع
بولا بیمار بیٹے سے آقا مرا اب نہ آئے گا اے بیٹا بابا ترا ہائے بابا ترا
موت کی آہٹیں تیز ہونے لگیں آرہی ہے صدا الوداع الوداع الوداع الوداع
آیا خیمے سے باہر جو مولی' مرا بھائی بیٹا بھتیجا کوئی بھی نہ تھا ہاں کوئی بھی نہ تھا
ایک حسرت سے چاروں طرف دیکھ کر شہ نے خود ہی کہا الوداع الوداع الوداع الوداع
جب تڑپ کر کہا میرے شیروں اٹھو آؤ زینب کے بھائی کو رخصت کرو آؤ رخصت کرو
ایک اک لاشِ بے سر سے آئی صدا اے شہِ کربلا الوداع الوداع الوداع الوداع
ایسا ماتم کرو ایسا ماتم کرو پاک بی بی کہے مرحبا مرحبا مرحبا مرحبا
خوں اگلتے ہوئے ایک اک زخم سے آج آئے صدا الوداع الوداع الوداع الوداع

شباب المومنین 2003
 
Top