کاشفی
محفلین
نوحہ برائے وفات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
روضہ پہ مصطفیٰ کے تھا فاطمہ کا نوحہ
بابا تمہاری بیٹی اب رہ گئی ہے تنہا
آتا نہیں ہے در پہ کوئی سلام کرنے
دشمن ہوا زمانہ بدلی ہوئی ہے دنیا
کیا جانے ہوگی حالت اب کیا تمہارے گھر کی
جب دو دنوں میں بدلا دنیا کا ایسا نقشہ
اُمت ہمارے در پر اس شان سے ہے آئی
دروازہ کو جلا کر ہم کو دیا ہے پرسہ
ان لوگوں نے کیا ہے پہلو مرا شکستہ
پہلو میں بیٹھے تھے جو کل تمہارے بابا
بیعت کے طالبوں نے باندھی رسن گلے میں
قیدی اسے بنایا جس کو کہا تھا مولا
قیدی تھا میرا وارث ٹوٹا تھا میرا پہلو
پھر بھی اٹھایا میں نے محسن کا اپنے لاشہ
حسنین رو رہے ہیں نانا کو یاد کرکے
زینب تڑپ رہی ہے اب کون ہے سہارا
ان بچوں کی حالت کیوں کر نہ غیرہوتی
جو بچپنے میں دیکھیں دروازہ اپنا جلتا
بابا تمہارے غم میں سب بچے رو رہے ہیں
کس کس کو دوں تسلّی ، کس کس کو دوں دلاسہ
یہ بارغم اٹھایا کس دور میں زمیں نے
کب انقلاب ایسا اس آسماں نے دیکھا
بابا تمہارے غم میں روتی وہ قوم کیسے
جس قوم نے تمہاری اولاد کو رلایا
زہرا کے بین سن کر جن و ملک تھے گریاں
روضہ پہ مصطفیٰ کے اک حشر سا تھا برپا
صُبّت علی جس دم کہتی تھی بنت احمد
گیتی کو زلزلہ تھا تھرّا رہا تھا روضہ
آواز آرہی تھی یہ قبر مصطفیٰ سے
بابا کو مت رلاؤ یوں رو کے میری زہرا
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
روضہ پہ مصطفیٰ کے تھا فاطمہ کا نوحہ
بابا تمہاری بیٹی اب رہ گئی ہے تنہا
آتا نہیں ہے در پہ کوئی سلام کرنے
دشمن ہوا زمانہ بدلی ہوئی ہے دنیا
کیا جانے ہوگی حالت اب کیا تمہارے گھر کی
جب دو دنوں میں بدلا دنیا کا ایسا نقشہ
اُمت ہمارے در پر اس شان سے ہے آئی
دروازہ کو جلا کر ہم کو دیا ہے پرسہ
ان لوگوں نے کیا ہے پہلو مرا شکستہ
پہلو میں بیٹھے تھے جو کل تمہارے بابا
بیعت کے طالبوں نے باندھی رسن گلے میں
قیدی اسے بنایا جس کو کہا تھا مولا
قیدی تھا میرا وارث ٹوٹا تھا میرا پہلو
پھر بھی اٹھایا میں نے محسن کا اپنے لاشہ
حسنین رو رہے ہیں نانا کو یاد کرکے
زینب تڑپ رہی ہے اب کون ہے سہارا
ان بچوں کی حالت کیوں کر نہ غیرہوتی
جو بچپنے میں دیکھیں دروازہ اپنا جلتا
بابا تمہارے غم میں سب بچے رو رہے ہیں
کس کس کو دوں تسلّی ، کس کس کو دوں دلاسہ
یہ بارغم اٹھایا کس دور میں زمیں نے
کب انقلاب ایسا اس آسماں نے دیکھا
بابا تمہارے غم میں روتی وہ قوم کیسے
جس قوم نے تمہاری اولاد کو رلایا
زہرا کے بین سن کر جن و ملک تھے گریاں
روضہ پہ مصطفیٰ کے اک حشر سا تھا برپا
صُبّت علی جس دم کہتی تھی بنت احمد
گیتی کو زلزلہ تھا تھرّا رہا تھا روضہ
آواز آرہی تھی یہ قبر مصطفیٰ سے
بابا کو مت رلاؤ یوں رو کے میری زہرا