وہ جو پیش و پس میں تھی روشنی
سرِسطرِ شوق رہی نہیں
یہ چراغ کیسا بجھا دیا، شبِ منتقم میرے سامنے
ابھی اس حرم کے طواف میں تھے قدم مرے
مجھے کیوں ہو دعوٰئ ھمسری کہ بہت فرو تھے عَلَم مِرے ابھی اس کے منبروبام سے
پسِ دوپہر یہ عجیب قحطِ ہوا پڑا
رگِ ساز میں کوئی پارہِ دل لخت لخت اٹک گیا تو فغاں کی شکل بدل گئی
کسی کوہ پر، کسی مقتلِ شبِ ذات میں
کہیں طبل و دف کی صدا نہیں کہ مزاحمت کی سپاہ کا وہ رجز گزار چلا گیا
مِرے سامنے، شبِ منتقم
یہ چراغ کیسا بجھا دیا
مرے جسم و جاں میں سکت کہاں کہ نحیف لَو کی مدافعت میں حصار ہوں
نہ فگار سینے میں سانس تھے
جو اکھڑتے دم کی عبادتوں پہ نثار ہوں
ابھی درسِ مکتبِ لحنِ ہجر تھے کم مرے
ابھی اس حرم کے طواف میں تھے قدم مرے
مجھے کیوں ہو دعوٰئ ھمسری کہ بہت فرو تھے عَلَم مِرے ابھی اس کے منبروبام سے
زرِصبح اس کا گراں بہت مِرے عنبرِ شبِ خام سے
یہ عجیب قحطِ صدا پڑا مرے شہر میں سرِ شام سے
سرِسطرِ شوق رہی نہیں
یہ چراغ کیسا بجھا دیا، شبِ منتقم میرے سامنے
ابھی اس حرم کے طواف میں تھے قدم مرے
مجھے کیوں ہو دعوٰئ ھمسری کہ بہت فرو تھے عَلَم مِرے ابھی اس کے منبروبام سے
پسِ دوپہر یہ عجیب قحطِ ہوا پڑا
رگِ ساز میں کوئی پارہِ دل لخت لخت اٹک گیا تو فغاں کی شکل بدل گئی
کسی کوہ پر، کسی مقتلِ شبِ ذات میں
کہیں طبل و دف کی صدا نہیں کہ مزاحمت کی سپاہ کا وہ رجز گزار چلا گیا
مِرے سامنے، شبِ منتقم
یہ چراغ کیسا بجھا دیا
مرے جسم و جاں میں سکت کہاں کہ نحیف لَو کی مدافعت میں حصار ہوں
نہ فگار سینے میں سانس تھے
جو اکھڑتے دم کی عبادتوں پہ نثار ہوں
ابھی درسِ مکتبِ لحنِ ہجر تھے کم مرے
ابھی اس حرم کے طواف میں تھے قدم مرے
مجھے کیوں ہو دعوٰئ ھمسری کہ بہت فرو تھے عَلَم مِرے ابھی اس کے منبروبام سے
زرِصبح اس کا گراں بہت مِرے عنبرِ شبِ خام سے
یہ عجیب قحطِ صدا پڑا مرے شہر میں سرِ شام سے