کاشفی
محفلین
نوحہ - منشی دیا نارائن نگم
(المتوفی 1943ء)
(از: راز چاند پوری)
(المتوفی 1943ء)
(از: راز چاند پوری)
منشی دیانارائن نگم صاحب پچھلی صدی کے اول دور کے مشہور شاعر، ادیب اور صحافی تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اُردو کی ترقی اور ابلاغکے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ایک مدت تک وہ کانپور (بھارت) سے "زمانہ" کے نام سے ایک موقر اور معیاری ماہانہ شائع کرتے رہے اور کچھ عرصہ تک راز مرحوم اِس رِسالہ کے نائب مدیر بھی رہے۔ اُردو کے ساتھ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے رسائل، جرائد اور ادارے شخصیات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں اور ان شخصیات کے اس دارِ فانی سے پرواز کر جانے کے بعد یہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ نقوش (مولوی طفیل احمد)، نگار(مولانا نیاز فتحپوری)، شاعر (مولانا سیماب اکبر آبادی)، افکار (صہبا لکھنوی)، زمانہ (منشی دیا نارائن نگم) اور ایسے ہی سیکڑوں رسالے اپنے بانیوں کے ساتھ ہی یا تو دنیا سے رخصت ہوگئے یا اگر زندہ بھی رہے تو نیم جان اور پژمردہ - "زمانہ" بھی منشی صاحب کے ساتھ ہی اس دُنیا سے اُٹھ گیا اور پھر اس کو جلد ہی لوگ بھول گئے۔ راز صاحب نے یہ نوحہ اپنے دیرینہ دوست منشی دیا نارائن نگم صاحب کی وفات پر لکھا تھا اور ان چند اشعار میں وہ سب کچھ کہہ دیا تھا جو وہ کہنا چاہتے تھے-
انقلابِ جہاں ہے حیرت خیز
رنج آموز اور غم انگیز
رنگِ نیرنگِ عالمِ فانی
کھا چُکا ہے ہزار ہا مانی
آہ! وہ اہلِ دل، وہ اہلِ کمال
روح پرور تھا جن کا حال و قال
نازش محفلِ سخن نہ رہے
رونق افزائے انجمن نہ رہے
یہ ستم دیکھئے زمانہ کا
موت عنوان ہے فسانے کا
آہ ! وہ مصدرِ خلوص و کرم
آہ! وہ صاحبِ نظر، وہ نگم
آہ وہ قدر دانِ اہلِ کمال
تھا زمانہ میں آپ اپنی مثال
دردِ ملت کا راز دار تھا وہ
صاحبِ دل تھا، غمگسار تھا وہ
تھی یہ افتاد اُس کی فطرت کی
عمر بھر اُس زباں کی خدمت کی
ہند کی جو زبان ہے گویا
دوستی کا نشان ہے گویا
جب تک اُردو زبان ہے باقی
مٹ نہیں سکتا اُس کا نام کبھی
رنج آموز اور غم انگیز
رنگِ نیرنگِ عالمِ فانی
کھا چُکا ہے ہزار ہا مانی
آہ! وہ اہلِ دل، وہ اہلِ کمال
روح پرور تھا جن کا حال و قال
نازش محفلِ سخن نہ رہے
رونق افزائے انجمن نہ رہے
یہ ستم دیکھئے زمانہ کا
موت عنوان ہے فسانے کا
آہ ! وہ مصدرِ خلوص و کرم
آہ! وہ صاحبِ نظر، وہ نگم
آہ وہ قدر دانِ اہلِ کمال
تھا زمانہ میں آپ اپنی مثال
دردِ ملت کا راز دار تھا وہ
صاحبِ دل تھا، غمگسار تھا وہ
تھی یہ افتاد اُس کی فطرت کی
عمر بھر اُس زباں کی خدمت کی
ہند کی جو زبان ہے گویا
دوستی کا نشان ہے گویا
جب تک اُردو زبان ہے باقی
مٹ نہیں سکتا اُس کا نام کبھی